بسم اللہ الرحمن الرحيم
اللھم صلي علي محمد وال محمد
قرآن کريم کے تيسرے سورہ ’’آلِ عمران‘‘ آيت نمبر 61 ميں ارشادِ باري تعاليٰ ہے :
ترجمہ: ’’ اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم آچکا (کہ عيسيٰ ٴ خدا کے بندے ہيں) اگر يہ لوگ تم سے ان کے بارے ميں جھگڑا کريں تو ان سے کہو: آو ہم اپنے بيٹوں کو بلائيں تم بھي اپنے بيٹوں کو بلاو، ہم اپني عورتوں کو بلائيں تم بھي اپني عورتوں کو بلاو ہم اپنے نفسوں کو بلائيں تم بھي اپنے نفسوں کو بلاو پھر خدا کے سامنے گڑ گڑائيں اور جھوٹوں پر خدا کي لعنت کريں۔‘‘
يہ آيہ مباہلہ کہلاتي ہے جس کي شانِ نزول يہ ہے کہ مسلمانوں کا ايک وفد نجران بھيجا گيا۔ وہاں کے عيسائيوں نے دلائل سنے تو حضور 0 سے بحث کرنے کا خيال ان کے دل ميں پيدا ہوا ، چنانچہ ان کا ايک وفد جس ميں چاليس آدمي (بعض روايات ميں ساٹھ آدمي) تھے۔ تين سرداروں ، اسقف‘ عاقب اور سيدکي ماتحتي ميں ذي الحجہ 10 ھ ميں واردِ مدينہ ہوا۔ حضرت0 کے پوچھنے پر انہوں نے بتايا کہ ہم مناظرہ کرنے آئے ہيں۔ چنانچہ آپ0 کئي روز تک ان کو سمجھاتے رہے کہ تم جناب عيسيٰ (عليہ السلام) کو ابن اللہ اس لئے کہتے ہو کہ وہ بے باپ کے پيدا ہوئے تھے ليکن آدمٴ کو کيوں نہيں کہتے جو ماں اور باپ دونوں کے بغير پيدا ہوئے تھے۔ حقيقت يہ ہے کہ خدا نے جس طرح حضرت آدمٴ کو مٹي سے پيدا کيا تھا اسي طرح حضرت عيسيٰ کو پيدا کيا۔
مگر وہ نہ مانے اور اپني ہٹ پر جمے رہے۔ بہرحال يہ طے پايا کہ مباہلہ کيا جائے۔ مباہلہ کي صورت يہ ہوتي تھي کہ ہر فريق يہ کہتا تھا کہ اگر ميرا حريف اپنے دعوے ميں جھوٹا ہے تو اللہ اس پر عذاب نازل کرے۔
مباہلہ طے پاگيا تو ميدانِ مباہلہ ميں جانے سے پہلے حضور ختمي مرتبت0 خانہ امِ سلميٰ1 ميں تشريف لائے اور حضرت عليٴ، جنابِ فاطمہٴ اور حضرت امام حسنٴ و امام حسينٴ کو اپني يمني چادر ميں ڈھانپ کر فرمايا: ’’يا اللہ يہ ميرے اہلِ بيتٴ ہيں۔‘‘
جنابِ امِ سلمہ1 نے اس چادر ميں آنا چاہا تو يہ کہہ کر ان کو روک ديا کہ تم خير پر ضرور ہو مگر اہلِ بيتٴ ميں تمہارا شمار نہيں۔ اسي وقت جبرئيل امينٴ آيہ تطہير لے کر نازل ہوئے جس کے مصداق يہي پانچوں بزرگ تھے۔ يہي وہ لوگ ہيں جن کو اللہ نے تمام ظاہري و باطني عيوب سے پاک رکھا ہے۔
آيہ تطہير کي عملي تفسير دکھانے کے لئے حضور0 مباہلہ کے لئے بيت الشرف سے اس طرح نکلے کہ حضرت امام حسنٴ کي انگلي پکڑے ہوئے تھے اور حضرت امام حسينٴ کو گود ميں لئے ہوئے تھے۔ جنابِ فاطمہٴ آپ0 کے پيچھے اور حضرت عليٴ ان کے پيچھے تھے۔ جب نصاريٰ کے پادري نے انہيں ديکھا تو اپنے گروہ سے کہہ ديا کہ ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرنا ورنہ تباہ و برباد ہوجاو گے۔ ميں ايسے چہرے ديکھ رہا ہوں کہ اگر يہ خدا سے دعا کريں کہ پہاڑ کو اپني جگہ سے ہٹادے تو وہ ضرور ہٹا دے گا۔ اگر محمد0 کو اپني صداقت پر يقين نہ ہوتا تو آتشِ غضبِ الٰہي کا نشانہ بنانے کے لئے کبھي اپنے کنبہ کو ساتھ لے کر نہ آتے۔ چنانچہ انہوں نے مباہلہ سے گريز کيا اور جزيہ دينا قبول کرليا۔ يہ واقعہ 24 ذي الحجہ 10ھ کا ہے۔
آيہ مباہلہ، آيہ تطہير اور واقعہ مباہلہ پر غور کرنے کے بعد چند باتيں ذہن ميںآتي ہيں۔ جناب مولانا سيد ظفر حسن امروہوي اعليٰ اللہ مقامہ‘ نے اپني تفسيرالقرآن ميں مندرجہ ذيل نکات اٹھائے ہيں۔
1۔ جب حضرت 0 اپنے اہلِ بيتٴ کو لے کر چلے تھے تو فرمايا تھا جب ميں بددعا کروں تو تم سب آمين کہنا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح آپ0 کو اپني بددعا کے رد نہ ہونے کا يقين تھا‘ اسي طرح اپنے اہلِ بيتٴ کي آمين کے رد نہ ہونے کا بھي يقين تھا ۔
2۔ جب حضور0 بددعا کے لئے خود ہي کافي تھے تو اپنے ساتھ ان لوگوں کو کيوں لے گئے؟ اس کي دو ہي وجوہات ہوسکتي ہيں: اول‘ يہ دکھانا مقصود تھا کہ يہ شريک کارِ رسالت ہيں۔ دوسرے‘ ميري رسالت کے معصوم گواہ ہيں۔ ان کي اور ميري عظمت ميں کوئي فرق نہيں۔ يہ ميرے نور کے ٹکڑے ہيں۔ ہم ايک جان اور پانچ قالب ہيں۔
3۔ ميں ہدايت کا پورا بندوبست اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں۔ حسنٴ و حسينٴ بچوں کے لئے، فاطمہ زہراٴ عورتوں کے لئے، عليٴ جوانوں کے لئے اور ميں من حيث المجموع سب کے لئے ہادي ہوں۔ گويا ميرے گھر ميں انسان کے ہر طبقہ کي ہدايت کا سامان ہے۔ يہي وجہ تھي کہ خدا نے آيہ مباہلہ ميں ان سب کو ساتھ لے جانے کا حکم ديا۔ ورنہ نصاريٰ سے مباہلہ کے لئے صرف رسول0 کافي تھے۔ بچوں اور عورتوں کا اس سے تعلق نہ تھا۔
4۔ يہ بھي بتانا تھا کہ آيہ ’’کُونُوا مع الصَّادقين ۔۔۔۔‘‘ ميں صادقين کے مصداق يہي ہيں۔ کيونکہ جب نصاريٰ نے مباہلہ ميں گريز کيا تو گويا خود کو کاذب تسليم کرليا۔ اس صورت ميں ان کا مدِمقابل صادق قرار پايا۔
5۔ بعض حضرات ايسي ہر آيت ميں تاويل کي کوشش کرتے ہيں جو اہلِ بيتٴ کي شان ميں ہو، ليکن اس آيت ميں تاويل کي کوئي گنجائش نہيں، کيونکہ يہاں عملي صورت بھي موجود ہے۔
6۔ اب کوئي نہيں کہہ سکتا کہ حسنينٴ فرزندانِ رسول0 نہيںہيں۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو خدا يہ جانتے ہوئے کہ رسول0 کے بيٹے نہيں ہيں، بيٹوں کو شريکِ مباہلہ کرنے کا ذکر آيت ميں کيوں کرتا۔
7۔ اب کوئي يہ بھي نہيں کہہ سکتا کہ عليٴ نفسِ رسول0 نہيں ہيں۔ اگر آيت ميں ’’انفسنا‘‘ سے مراد خود نفسِ رسول ہو تو حضور0 اپنے ساتھ ايک ايسے شخص کو کيوں لے گئے جس کے لے جانے کا آپ0 کو حکم نہ تھا اور خدا نے ٹوکا کيوں نہيں کہ ميري مرضي کے خلاف عليٴ کو کيوں لے جارہے ہو؟
8۔ اس سے بھي کوئي انکار نہيں کرسکتا کہ اس وقت مسلمانوں ميں ان چار افراد کے سوا جو رسول0 کے ساتھ تھے، اور کوئي اس پائے کا سچا نہ تھا جس نے کبھي جھوٹ نہ بولا ہو۔9۔ يہ بھي معلوم ہوا کہ ان کے چہروں پر صداقت کا نور اس حد تک چمکتا تھا کہ کفار بھي اسے ديکھ کر سمجھ گئے کہ يہ مقربانِ بارگاہ ايزدي ہيں۔ ان کي کوئي درخواست بارگاہِ پروردگار سے بغير قبول ہوئے نہيں رہ سکتي۔
10۔ يہ بھي معلوم ہوا کہ نفسِ واحد پر جمع کا اطلاق ہوسکتا ہے جيسے عليٴ و فاطمہٴ کے لئے انفسنا اور نسائنا کا اطلاق کيا گيا۔ بس اسي طرح آيہ انما وليکم اللہ و رسولہ و الذين اٰمنوا الذين يقيمون الصلٰوۃ و يوتون الزکٰوۃ و ھم راکعون۔ ميں تعظيماً حضرت علي کے لئے جمع کے صيغے لائے گئے ہيں۔
درجِ بالا اہم نکات کے ساتھ درج ذيل نکات بھي شامل کئے جاسکتے ہيں:
1۔ اہلِ بيتٴ کي عظمت، صداقت اور عصمت کي ايک عمدہ اور عملي صورت اس آيت اور واقعہ ميں بہت واضح نظر آتي ہے جس کو جھٹلانا ناممکن ہے۔
2۔ ’’انفسنا‘‘ کي منزل ميں حضرت عليٴ کا ساتھ جانا حضرت عليٴ کي حضور0 سے قربت کا بين ثبوت ہے۔ حق تو يہ ہے کہ ’’انفسنا‘‘ کا مصداق حضرت عليٴ کے سوا کوئي اور تھا ہي نہيں۔ چنانچہ ’’تيرا گوشت ميرا گوشت اور تيرا خون ميرا خون ہے‘‘، ’’ميں اور عليٴ ايک ہي نور سے خلق ہوئے‘‘ اور ’’ميں عليٴ سے ہوں اور عليٴ مجھ سے ہے‘‘، اس طرح کي لاتعداد احاديث ہيں۔
اگر نفس سے مراد جان کے لئے جائيں تب بھي يہ دونوں ايک جان دو قالب کے مصداق ہيں کيونکہ حضرت علي نے پيدائش کے بعد آنکھيں حضور0 کي گود ميں کھوليں اور تمام زندگي گھر ميں اور گھر سے باہر ہر قدم پر ہوش سنبھالنے سے لے کر حضور0 کي تجہيز و تکفين تک آپ0 کي مثالي نصرت فرمائي۔
3۔ ’’نسائنا‘‘ کے تحت جنابِ فاطمہ کا جانا بھي ان کي فضيلت کا کھلا اعلان ہے۔ جب اعلان ’’اپني عورتوں‘‘ کو لانے کا تھا تو اس ميں بہت گنجائش تھي کہ ازواجِ مطہرات کو لے جاتے يا ايک سے زيادہ بيٹياں اگر تھيں‘ تو ان ميں سے کسي کو يا بني ہاشم کي کسي خاتون کو، کسي صحابيہ يا صحابہ کرام ميں سے کسي کي بيٹي يا بہن ميں سے کسي کو لے جايا جاسکتا تھا مگر صرف جنابِ سيدہٴ کو لے جانے کا مطلب يہ ہوا کہ وہي ايسي خاتون تھيں جو بے مثال بيٹي، بے نظير زوجہ اور عظيم ترين ماں کا مکمل نمونہ تھيں۔ ان مراتب سے مزين کوئي اور خاتون (جن ميں يہ تينوں اوصاف بدرجہ اتم موجود ہوں) اس دور ميں کوئي اور نظر نہيں آئي۔ سچ تو يہ ہے کہ بابا کي اطاعت ، شوہر کي خدمت اور بچوں کي تربيت کے باب ميں بي بي جيسا کوئي نہيں۔
4۔ يہ واقعہ 9 يا 10 ہجري کا ہے جو ظاہري حيات رسول0 کا آخري زمانہ ہے۔ اس وقت ان چار افراد کا حضور 0 کے ساتھ جانا ثابت کرتا ہے کہ يہ حضرات امت کے چنيدہ ترين صادقين و صالحين تھے۔
5۔ نجران کے وفد نے حضور 0، حضرت علي اور حضرات حسنين عليہم السلام کو يقينا مسجدِ نبوي ميں مباحثہ کے دوران ديکھا ہوگا ليکن واقعہ مباہلہ ميں صرف بي بي فاطمہٴ ہي ايسي تھيں جنہيں ان لوگوں نے غالباً پہلي بار ديکھا ہوگا۔ يقينا يہي بي بي ان پانچوں ميں ايسي تھيں کہ ايک بڑے معرکے کي فتحيابي کا باعث بنيں۔
6 ۔ ان افراد کا انتخاب کسي مجبوري کے تحت نہ تھا کہ بچے ماں کے بغير نہيں رہ سکتے تھے اس لئے ماں کو مجبوراً ساتھ ليا گيا يا ماں بچوں کے بغير نہيں جاسکتي تھي، اس لئے مجبوراً بچوں کو ساتھ لے ليا گيا۔ بلکہ يہ جو کچھ تھا، وہ حکمِ خدا کے تحت ايک کام تھا، جس سے ان حضرات کي اہميت دکھانا مقصود تھي
اسي ضمن ميں چند غور طلب امور
1۔ نصاريٰ نجران نے سب سے پہلے علمي بحث شروع کي اور حضور نے وحي الٰہي کے مطابق علم کا جواب علم سے ديا يعني نصاريٰ اعتراض کرتے اور رسول کريم0 قرآن پيش فرماتے تھے۔
2۔ قرآني دليل سے وہ متاثر نہ ہوئے اور اپني ہي بات پر اڑے رہے۔ اب اگر تھوڑي دير کے ليے يہ تسليم کرليا جائے کہ مناظرہ يا مباحثہ محض علمي نکات تک محدودہوتا تو نصاريٰ يہ کہہ کر اپنے وطن چلے جاتے کہ پيغمبر اسلام نے ہميں دعوت اسلام دي مگر اپنے دلائل سے ہميں قائل نہ کرسکے۔ چنانچہ جن قبائل تک نصاريٰ کي يہ آواز پہنچتي وہ بھي اس سے متاثر ہوتے اور اسلام اور پيغمبر اسلام 0 کے متعلق عوام کے شکوک و شبہات بڑھ جاتے۔ مگر رب تعاليٰ نے نصاريٰ کي ہٹ دھرمي ديکھتے ہوئے اپنے رسول0 کو مباہلے کا حکم دے ديا۔ يعني پہلے ’’تمہارے پاس علم آگيا‘‘ کہہ کر حجت تمام کي، اور جب انہوں نے قرآن کو نہ مانا تو فرمايا: ’’فقل تعالوا ندعُ ابنائنا....‘‘
3۔ اس سے يہ بھي ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت نے اسلام کي حقانيت ظاہر کرنے کے ليے حضور0 کونہ صرف قرآن ديا بلکہ اس کے ساتھ اہل بيت بھي عطا کيے کہ اگر کوئي کسي وقت قرآن سے متاثر نہ ہو تو اہل بيت کو پيش کر ديا جائے۔ چنانچہ دعوت مباہلہ قرآن پيش کرنے کے بعد ہي دي گئي اور جب حضور0 انہي نصاريٰ کے سامنے (جو قرآن سے متاثر نہ ہوئے تھے)اہل بيت کو ليکر مباہلہ کرنے نکلے تو وہ بول اٹھے کہ ’’ہم ايسے چہرے ديکھ رہے ہيں کہ اگر يہ خدا سے چاہيں کہ پہاڑ اپني جگہ سے ہل جائے تو خداان کي خواہش کے پيش نظر اسے زائل کردے گا‘‘ اور فوراً ہار مان لي۔ چنانچہ خدا وند عالم نے نصاريٰ کے سامنے قرآن کي حقانيت ثابت کرنے کے ليے وارثان کتاب کو جانے کاحکم ديا جس سے ثابت ہو ا کہ حقانيت اسلام کے ثبوت کے ليے قدرت نے بھي قرآن کے ساتھ اہلبيت کو لازم سمجھا۔
4۔ آيہ کريمہ ميں ابنائنا ‘ نسائنا‘ اور انفسنا کے الفاظ صيغہ جمع کي صورت ميں آئے ہيں اور عربي قائدے کے مطابق جمع کا صيغہ کم از کم تين افراد چاہتا ہے۔ مگر حضور0 جب مباہلہ کے ميدان کي جانب چلے تو ابنائنا کي جگہ حسنٴ و حسينٴ، نسائنا کي جگہ فقط جناب سيدہٴ اور انفسنا کي جگہ صرف حضرت عليٴ کو لے کر گئے۔ حالانکہ جمع کے صيغے ميں اتني وسعت تھي کہ جتنے افراد کو چاہتے، ہمراہ لے جاتے مگر وسعت کے باوجود اس قدر محدود تعداد کو لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ جس قسم کے افراد کو رسول0 مباہلہ ميں لے جانا چاہتے تھے وہ صرف يہي تھے۔
حقانيت اسلام کو ثابت کرنے کے ليے رسول کا اہل بيت کو لے کر ميدان مباہلہ ميں نکلنا اس امر کي دليل ہے کہ قرآن اور اہل بيتٴ کا چولي دامن کا ساتھ ہے۔ جب کبھي قرآن پر حرف آيا تو اہل بيت سينہ سپر ہوئے اور جب اہل بيت کي شان پر حرف آئے گا قرآن سينہ سپر ہوگا۔ قرآن اہل بيت کے ساتھ ہے اور اہلبيتٴ قرآن کے ساتھ۔ تنہا قرآن کافي نہيں ہوسکتا جب تک اہلبيت کو شامل نہ کرليا جائے ۔
اللھم صلي علي محمد وال محمد
قرآن کريم کے تيسرے سورہ ’’آلِ عمران‘‘ آيت نمبر 61 ميں ارشادِ باري تعاليٰ ہے :
ترجمہ: ’’ اس کے بعد کہ تمہارے پاس علم آچکا (کہ عيسيٰ ٴ خدا کے بندے ہيں) اگر يہ لوگ تم سے ان کے بارے ميں جھگڑا کريں تو ان سے کہو: آو ہم اپنے بيٹوں کو بلائيں تم بھي اپنے بيٹوں کو بلاو، ہم اپني عورتوں کو بلائيں تم بھي اپني عورتوں کو بلاو ہم اپنے نفسوں کو بلائيں تم بھي اپنے نفسوں کو بلاو پھر خدا کے سامنے گڑ گڑائيں اور جھوٹوں پر خدا کي لعنت کريں۔‘‘
يہ آيہ مباہلہ کہلاتي ہے جس کي شانِ نزول يہ ہے کہ مسلمانوں کا ايک وفد نجران بھيجا گيا۔ وہاں کے عيسائيوں نے دلائل سنے تو حضور 0 سے بحث کرنے کا خيال ان کے دل ميں پيدا ہوا ، چنانچہ ان کا ايک وفد جس ميں چاليس آدمي (بعض روايات ميں ساٹھ آدمي) تھے۔ تين سرداروں ، اسقف‘ عاقب اور سيدکي ماتحتي ميں ذي الحجہ 10 ھ ميں واردِ مدينہ ہوا۔ حضرت0 کے پوچھنے پر انہوں نے بتايا کہ ہم مناظرہ کرنے آئے ہيں۔ چنانچہ آپ0 کئي روز تک ان کو سمجھاتے رہے کہ تم جناب عيسيٰ (عليہ السلام) کو ابن اللہ اس لئے کہتے ہو کہ وہ بے باپ کے پيدا ہوئے تھے ليکن آدمٴ کو کيوں نہيں کہتے جو ماں اور باپ دونوں کے بغير پيدا ہوئے تھے۔ حقيقت يہ ہے کہ خدا نے جس طرح حضرت آدمٴ کو مٹي سے پيدا کيا تھا اسي طرح حضرت عيسيٰ کو پيدا کيا۔
مگر وہ نہ مانے اور اپني ہٹ پر جمے رہے۔ بہرحال يہ طے پايا کہ مباہلہ کيا جائے۔ مباہلہ کي صورت يہ ہوتي تھي کہ ہر فريق يہ کہتا تھا کہ اگر ميرا حريف اپنے دعوے ميں جھوٹا ہے تو اللہ اس پر عذاب نازل کرے۔
مباہلہ طے پاگيا تو ميدانِ مباہلہ ميں جانے سے پہلے حضور ختمي مرتبت0 خانہ امِ سلميٰ1 ميں تشريف لائے اور حضرت عليٴ، جنابِ فاطمہٴ اور حضرت امام حسنٴ و امام حسينٴ کو اپني يمني چادر ميں ڈھانپ کر فرمايا: ’’يا اللہ يہ ميرے اہلِ بيتٴ ہيں۔‘‘
جنابِ امِ سلمہ1 نے اس چادر ميں آنا چاہا تو يہ کہہ کر ان کو روک ديا کہ تم خير پر ضرور ہو مگر اہلِ بيتٴ ميں تمہارا شمار نہيں۔ اسي وقت جبرئيل امينٴ آيہ تطہير لے کر نازل ہوئے جس کے مصداق يہي پانچوں بزرگ تھے۔ يہي وہ لوگ ہيں جن کو اللہ نے تمام ظاہري و باطني عيوب سے پاک رکھا ہے۔
آيہ تطہير کي عملي تفسير دکھانے کے لئے حضور0 مباہلہ کے لئے بيت الشرف سے اس طرح نکلے کہ حضرت امام حسنٴ کي انگلي پکڑے ہوئے تھے اور حضرت امام حسينٴ کو گود ميں لئے ہوئے تھے۔ جنابِ فاطمہٴ آپ0 کے پيچھے اور حضرت عليٴ ان کے پيچھے تھے۔ جب نصاريٰ کے پادري نے انہيں ديکھا تو اپنے گروہ سے کہہ ديا کہ ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرنا ورنہ تباہ و برباد ہوجاو گے۔ ميں ايسے چہرے ديکھ رہا ہوں کہ اگر يہ خدا سے دعا کريں کہ پہاڑ کو اپني جگہ سے ہٹادے تو وہ ضرور ہٹا دے گا۔ اگر محمد0 کو اپني صداقت پر يقين نہ ہوتا تو آتشِ غضبِ الٰہي کا نشانہ بنانے کے لئے کبھي اپنے کنبہ کو ساتھ لے کر نہ آتے۔ چنانچہ انہوں نے مباہلہ سے گريز کيا اور جزيہ دينا قبول کرليا۔ يہ واقعہ 24 ذي الحجہ 10ھ کا ہے۔
آيہ مباہلہ، آيہ تطہير اور واقعہ مباہلہ پر غور کرنے کے بعد چند باتيں ذہن ميںآتي ہيں۔ جناب مولانا سيد ظفر حسن امروہوي اعليٰ اللہ مقامہ‘ نے اپني تفسيرالقرآن ميں مندرجہ ذيل نکات اٹھائے ہيں۔
1۔ جب حضرت 0 اپنے اہلِ بيتٴ کو لے کر چلے تھے تو فرمايا تھا جب ميں بددعا کروں تو تم سب آمين کہنا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح آپ0 کو اپني بددعا کے رد نہ ہونے کا يقين تھا‘ اسي طرح اپنے اہلِ بيتٴ کي آمين کے رد نہ ہونے کا بھي يقين تھا ۔
2۔ جب حضور0 بددعا کے لئے خود ہي کافي تھے تو اپنے ساتھ ان لوگوں کو کيوں لے گئے؟ اس کي دو ہي وجوہات ہوسکتي ہيں: اول‘ يہ دکھانا مقصود تھا کہ يہ شريک کارِ رسالت ہيں۔ دوسرے‘ ميري رسالت کے معصوم گواہ ہيں۔ ان کي اور ميري عظمت ميں کوئي فرق نہيں۔ يہ ميرے نور کے ٹکڑے ہيں۔ ہم ايک جان اور پانچ قالب ہيں۔
3۔ ميں ہدايت کا پورا بندوبست اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں۔ حسنٴ و حسينٴ بچوں کے لئے، فاطمہ زہراٴ عورتوں کے لئے، عليٴ جوانوں کے لئے اور ميں من حيث المجموع سب کے لئے ہادي ہوں۔ گويا ميرے گھر ميں انسان کے ہر طبقہ کي ہدايت کا سامان ہے۔ يہي وجہ تھي کہ خدا نے آيہ مباہلہ ميں ان سب کو ساتھ لے جانے کا حکم ديا۔ ورنہ نصاريٰ سے مباہلہ کے لئے صرف رسول0 کافي تھے۔ بچوں اور عورتوں کا اس سے تعلق نہ تھا۔
4۔ يہ بھي بتانا تھا کہ آيہ ’’کُونُوا مع الصَّادقين ۔۔۔۔‘‘ ميں صادقين کے مصداق يہي ہيں۔ کيونکہ جب نصاريٰ نے مباہلہ ميں گريز کيا تو گويا خود کو کاذب تسليم کرليا۔ اس صورت ميں ان کا مدِمقابل صادق قرار پايا۔
5۔ بعض حضرات ايسي ہر آيت ميں تاويل کي کوشش کرتے ہيں جو اہلِ بيتٴ کي شان ميں ہو، ليکن اس آيت ميں تاويل کي کوئي گنجائش نہيں، کيونکہ يہاں عملي صورت بھي موجود ہے۔
6۔ اب کوئي نہيں کہہ سکتا کہ حسنينٴ فرزندانِ رسول0 نہيںہيں۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو خدا يہ جانتے ہوئے کہ رسول0 کے بيٹے نہيں ہيں، بيٹوں کو شريکِ مباہلہ کرنے کا ذکر آيت ميں کيوں کرتا۔
7۔ اب کوئي يہ بھي نہيں کہہ سکتا کہ عليٴ نفسِ رسول0 نہيں ہيں۔ اگر آيت ميں ’’انفسنا‘‘ سے مراد خود نفسِ رسول ہو تو حضور0 اپنے ساتھ ايک ايسے شخص کو کيوں لے گئے جس کے لے جانے کا آپ0 کو حکم نہ تھا اور خدا نے ٹوکا کيوں نہيں کہ ميري مرضي کے خلاف عليٴ کو کيوں لے جارہے ہو؟
8۔ اس سے بھي کوئي انکار نہيں کرسکتا کہ اس وقت مسلمانوں ميں ان چار افراد کے سوا جو رسول0 کے ساتھ تھے، اور کوئي اس پائے کا سچا نہ تھا جس نے کبھي جھوٹ نہ بولا ہو۔9۔ يہ بھي معلوم ہوا کہ ان کے چہروں پر صداقت کا نور اس حد تک چمکتا تھا کہ کفار بھي اسے ديکھ کر سمجھ گئے کہ يہ مقربانِ بارگاہ ايزدي ہيں۔ ان کي کوئي درخواست بارگاہِ پروردگار سے بغير قبول ہوئے نہيں رہ سکتي۔
10۔ يہ بھي معلوم ہوا کہ نفسِ واحد پر جمع کا اطلاق ہوسکتا ہے جيسے عليٴ و فاطمہٴ کے لئے انفسنا اور نسائنا کا اطلاق کيا گيا۔ بس اسي طرح آيہ انما وليکم اللہ و رسولہ و الذين اٰمنوا الذين يقيمون الصلٰوۃ و يوتون الزکٰوۃ و ھم راکعون۔ ميں تعظيماً حضرت علي کے لئے جمع کے صيغے لائے گئے ہيں۔
درجِ بالا اہم نکات کے ساتھ درج ذيل نکات بھي شامل کئے جاسکتے ہيں:
1۔ اہلِ بيتٴ کي عظمت، صداقت اور عصمت کي ايک عمدہ اور عملي صورت اس آيت اور واقعہ ميں بہت واضح نظر آتي ہے جس کو جھٹلانا ناممکن ہے۔
2۔ ’’انفسنا‘‘ کي منزل ميں حضرت عليٴ کا ساتھ جانا حضرت عليٴ کي حضور0 سے قربت کا بين ثبوت ہے۔ حق تو يہ ہے کہ ’’انفسنا‘‘ کا مصداق حضرت عليٴ کے سوا کوئي اور تھا ہي نہيں۔ چنانچہ ’’تيرا گوشت ميرا گوشت اور تيرا خون ميرا خون ہے‘‘، ’’ميں اور عليٴ ايک ہي نور سے خلق ہوئے‘‘ اور ’’ميں عليٴ سے ہوں اور عليٴ مجھ سے ہے‘‘، اس طرح کي لاتعداد احاديث ہيں۔
اگر نفس سے مراد جان کے لئے جائيں تب بھي يہ دونوں ايک جان دو قالب کے مصداق ہيں کيونکہ حضرت علي نے پيدائش کے بعد آنکھيں حضور0 کي گود ميں کھوليں اور تمام زندگي گھر ميں اور گھر سے باہر ہر قدم پر ہوش سنبھالنے سے لے کر حضور0 کي تجہيز و تکفين تک آپ0 کي مثالي نصرت فرمائي۔
3۔ ’’نسائنا‘‘ کے تحت جنابِ فاطمہ کا جانا بھي ان کي فضيلت کا کھلا اعلان ہے۔ جب اعلان ’’اپني عورتوں‘‘ کو لانے کا تھا تو اس ميں بہت گنجائش تھي کہ ازواجِ مطہرات کو لے جاتے يا ايک سے زيادہ بيٹياں اگر تھيں‘ تو ان ميں سے کسي کو يا بني ہاشم کي کسي خاتون کو، کسي صحابيہ يا صحابہ کرام ميں سے کسي کي بيٹي يا بہن ميں سے کسي کو لے جايا جاسکتا تھا مگر صرف جنابِ سيدہٴ کو لے جانے کا مطلب يہ ہوا کہ وہي ايسي خاتون تھيں جو بے مثال بيٹي، بے نظير زوجہ اور عظيم ترين ماں کا مکمل نمونہ تھيں۔ ان مراتب سے مزين کوئي اور خاتون (جن ميں يہ تينوں اوصاف بدرجہ اتم موجود ہوں) اس دور ميں کوئي اور نظر نہيں آئي۔ سچ تو يہ ہے کہ بابا کي اطاعت ، شوہر کي خدمت اور بچوں کي تربيت کے باب ميں بي بي جيسا کوئي نہيں۔
4۔ يہ واقعہ 9 يا 10 ہجري کا ہے جو ظاہري حيات رسول0 کا آخري زمانہ ہے۔ اس وقت ان چار افراد کا حضور 0 کے ساتھ جانا ثابت کرتا ہے کہ يہ حضرات امت کے چنيدہ ترين صادقين و صالحين تھے۔
5۔ نجران کے وفد نے حضور 0، حضرت علي اور حضرات حسنين عليہم السلام کو يقينا مسجدِ نبوي ميں مباحثہ کے دوران ديکھا ہوگا ليکن واقعہ مباہلہ ميں صرف بي بي فاطمہٴ ہي ايسي تھيں جنہيں ان لوگوں نے غالباً پہلي بار ديکھا ہوگا۔ يقينا يہي بي بي ان پانچوں ميں ايسي تھيں کہ ايک بڑے معرکے کي فتحيابي کا باعث بنيں۔
6 ۔ ان افراد کا انتخاب کسي مجبوري کے تحت نہ تھا کہ بچے ماں کے بغير نہيں رہ سکتے تھے اس لئے ماں کو مجبوراً ساتھ ليا گيا يا ماں بچوں کے بغير نہيں جاسکتي تھي، اس لئے مجبوراً بچوں کو ساتھ لے ليا گيا۔ بلکہ يہ جو کچھ تھا، وہ حکمِ خدا کے تحت ايک کام تھا، جس سے ان حضرات کي اہميت دکھانا مقصود تھي
اسي ضمن ميں چند غور طلب امور
1۔ نصاريٰ نجران نے سب سے پہلے علمي بحث شروع کي اور حضور نے وحي الٰہي کے مطابق علم کا جواب علم سے ديا يعني نصاريٰ اعتراض کرتے اور رسول کريم0 قرآن پيش فرماتے تھے۔
2۔ قرآني دليل سے وہ متاثر نہ ہوئے اور اپني ہي بات پر اڑے رہے۔ اب اگر تھوڑي دير کے ليے يہ تسليم کرليا جائے کہ مناظرہ يا مباحثہ محض علمي نکات تک محدودہوتا تو نصاريٰ يہ کہہ کر اپنے وطن چلے جاتے کہ پيغمبر اسلام نے ہميں دعوت اسلام دي مگر اپنے دلائل سے ہميں قائل نہ کرسکے۔ چنانچہ جن قبائل تک نصاريٰ کي يہ آواز پہنچتي وہ بھي اس سے متاثر ہوتے اور اسلام اور پيغمبر اسلام 0 کے متعلق عوام کے شکوک و شبہات بڑھ جاتے۔ مگر رب تعاليٰ نے نصاريٰ کي ہٹ دھرمي ديکھتے ہوئے اپنے رسول0 کو مباہلے کا حکم دے ديا۔ يعني پہلے ’’تمہارے پاس علم آگيا‘‘ کہہ کر حجت تمام کي، اور جب انہوں نے قرآن کو نہ مانا تو فرمايا: ’’فقل تعالوا ندعُ ابنائنا....‘‘
3۔ اس سے يہ بھي ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت نے اسلام کي حقانيت ظاہر کرنے کے ليے حضور0 کونہ صرف قرآن ديا بلکہ اس کے ساتھ اہل بيت بھي عطا کيے کہ اگر کوئي کسي وقت قرآن سے متاثر نہ ہو تو اہل بيت کو پيش کر ديا جائے۔ چنانچہ دعوت مباہلہ قرآن پيش کرنے کے بعد ہي دي گئي اور جب حضور0 انہي نصاريٰ کے سامنے (جو قرآن سے متاثر نہ ہوئے تھے)اہل بيت کو ليکر مباہلہ کرنے نکلے تو وہ بول اٹھے کہ ’’ہم ايسے چہرے ديکھ رہے ہيں کہ اگر يہ خدا سے چاہيں کہ پہاڑ اپني جگہ سے ہل جائے تو خداان کي خواہش کے پيش نظر اسے زائل کردے گا‘‘ اور فوراً ہار مان لي۔ چنانچہ خدا وند عالم نے نصاريٰ کے سامنے قرآن کي حقانيت ثابت کرنے کے ليے وارثان کتاب کو جانے کاحکم ديا جس سے ثابت ہو ا کہ حقانيت اسلام کے ثبوت کے ليے قدرت نے بھي قرآن کے ساتھ اہلبيت کو لازم سمجھا۔
4۔ آيہ کريمہ ميں ابنائنا ‘ نسائنا‘ اور انفسنا کے الفاظ صيغہ جمع کي صورت ميں آئے ہيں اور عربي قائدے کے مطابق جمع کا صيغہ کم از کم تين افراد چاہتا ہے۔ مگر حضور0 جب مباہلہ کے ميدان کي جانب چلے تو ابنائنا کي جگہ حسنٴ و حسينٴ، نسائنا کي جگہ فقط جناب سيدہٴ اور انفسنا کي جگہ صرف حضرت عليٴ کو لے کر گئے۔ حالانکہ جمع کے صيغے ميں اتني وسعت تھي کہ جتنے افراد کو چاہتے، ہمراہ لے جاتے مگر وسعت کے باوجود اس قدر محدود تعداد کو لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ جس قسم کے افراد کو رسول0 مباہلہ ميں لے جانا چاہتے تھے وہ صرف يہي تھے۔
حقانيت اسلام کو ثابت کرنے کے ليے رسول کا اہل بيت کو لے کر ميدان مباہلہ ميں نکلنا اس امر کي دليل ہے کہ قرآن اور اہل بيتٴ کا چولي دامن کا ساتھ ہے۔ جب کبھي قرآن پر حرف آيا تو اہل بيت سينہ سپر ہوئے اور جب اہل بيت کي شان پر حرف آئے گا قرآن سينہ سپر ہوگا۔ قرآن اہل بيت کے ساتھ ہے اور اہلبيتٴ قرآن کے ساتھ۔ تنہا قرآن کافي نہيں ہوسکتا جب تک اہلبيت کو شامل نہ کرليا جائے ۔