إعـــــــلان

تقليص
لا يوجد إعلان حتى الآن.

خطبۃ السيدہ زينب سلام اللہ عليہا اور کوفہ

تقليص
X
 
  • تصفية - فلترة
  • الوقت
  • عرض
إلغاء تحديد الكل
مشاركات جديدة

  • خطبۃ السيدہ زينب سلام اللہ عليہا اور کوفہ

    بسم اللہ الرحمن الرحيم

    اللھم صلي علي محمد وال محمد

    تاريخ اسلام پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حسيني انقلاب کے اتمام و اکمال کي ذمہ داري سيد سجاد (ع) اور حضرت زينب سلام اللہ عليہا نے مخدرات کربلا کي معيت ميں انجام دي ہے اگر اسيروں نے اپني ہدايت و آگہي کا فريضہ بخوبي انجام نہ ديا ہوتا تو شہدائے کربلا کي محنتيں اس قدر جلدي بارآور ہونا بہت مشکل تھا واقعۂ کربلا کے دوران مصلحت پروردگار کے تحت مريض و لاغر سيد سجاد نے شہادت حسيني کے بعد تقريبا" 34 ، 35 سال تک دين اسلام اور حسيني تحريک کي جس طرح حفاظت و قيادت کي ہے اور دنيا کے تمام حريت نوازوں کو خون شہداء کي پيغام رساني کے راز و رموز تعليم دئے ہيں وہ کسي بھي انقلاب کي کاميابي و کامراني کے بنيادي رکن کہے جا سکتے ہيں -امام زين العابدين عليہ السلام اور ان کي پھوپھي حضرت زينب سلام اللہ عليہا نے اپني انقلابي حکمت عملي ثبات و استقامت کے ساتھ حقائق کي افشاگري پر استوار کي اور اپنے انقلابي - عرفاني افکار کے ذريعہ خوابيدہ ذہنوں کو بيدار و ہوشيار کيا اور ظلم و استبداد کے ہجوم ميں حقيقي اسلامي نظريات اشک و دعا کے انداز ميں پيش کرکے اموي منافقين کے چہروں پر پڑے نقاب الٹ دئے اور کوفہ و شام جيسي مردہ زمينوں ميں شہادت اور ايثار و قرباني کے بيج چھڑک کر اسلام و قرآن کے بلند و بالا سرسبز و شاداب تناور درخت کھڑے کردئے -اسيري کے عالم ميں کوفہ و شام کے در و ديوار پر اور قيد سے چھوٹ کر مدينہ اور مکہ کي فضاوں ميں حسيني شہادت کے ايک ايک واقعے نقش کردئے اور يزيدي ظلم و استبداد کے تمام غير انساني الميے برملا کردئے

    امام حسين (ع) کي شہادت اور اہل حرم کي اسيري کے جواز ميں اموي ٹکسال سے ڈھلنے والے تمام دعووں اور فتووں کے منہ توڑ جواب دے کر مظلوميت کے محاذ سے جابرانہ ملوکيت کے پڑخچے اڑادئے اور يزيدي مجرموں کو اپني کامراني پر فخر و انبساط کے ماحول ميں ،ذلت و پشيماني کا احساس کرتے ہوئے اپنے جرائم ماتحتوں کے سر منڈھنے پر مجبور ہونا پڑا -معتبر روايات کے مطابق اہل حرم کو قيد کرکے جس وقت کوفہ لے گئے شہر ميں داخلے سے قبل ايک رات اسيروں کو بيرون شہر روک ديا گيا پسر سعد مرصع خيمے ميں بيٹھ کر ساتھيوں کے ساتھ عيش و نوش ميں مشغول تھا اور اہل حرم زير آسمان بھوکے اور پياسے بچوں کے ساتھ يہ اذيت بھري شب تمام ہونے کے منتظر تھے. صبح ہوئي تو نيزوں پر آگے آگے شہدا کے سر اور پيچھے پيچھے رسن بستہ رسول زاديوں کے ساتھ سيد سجاد ، سرور شادماني کے طبل بجاتا لشکر اسيروں کے ساتھ شہر کوفہ ميں داخل ہوا تو يکے بعد ديگرے حسين (ع) کي بيٹي فاطمہ (ع) ، علي (ع) کي بيٹي ام کلثوم (ع) اور سيد سجاد (ع) کے خطبوں نے کوفيوں کے دلوں ميں ہلچل پيدا کردي وہ عالم ہوا کہ تماشے کے لئے جمع کئے گئے وفا کے دشمن دغا بازوں ميں بھي گريہ و زاري سے کہرام پڑگيا

    ايسے ميں علي (ع) کي بيٹي زينب کبريٰ (ع) نے آواز دي ! " اے کوفہ والو! اے مکر و دغا کے بندو ! تم رو رہے ہو خدا کرے تمہارے يہ آنسو کبھي نہ تھميں تم يونہي نالے کرتے رہو تمہاري مثال اس بوڑھي عورت کي ہے جو مضبوط دھاگا بٹ کر کھول دے اور فرياد کرے ، تم کوڑے ميں اگے ہوئے خس و خاشاک کي مانند ہو ، سيد سجاد (ع) نے فرمايا : کوفہ والو ! تم ہمارے مصائب پر روہے ہو آخر ہم پر يہ ظلم کس نے کئے ہيں ؟ ہمارے عزيزوں کو کس نے قتل کيا ہے ؟ ہم کو اسير کرکے يہاں کون لايا ہے ؟ بچوں کو بھوک سے بيتاب ديکھ کر کچھ عورتوں نے صدقے کے کھجور بچوں کي طرف پھينکے تو ام کلثوم نے ٹوکا : " خبردار صدقہ ہم آل محمد (ص) پر حرام ہے -" يہ سن کر مجمع سے گريہ وبکا کي آواز بلند ہوگئي اور پسر سعد نے حکم ديا کہ اسيروں کو مجمع سے دور کرديا جائے اور جب اہل حرم کو دربار ميں لے گئے تو امام سجاد (ع) پر نظر پڑتے ہي ابن زياد نے سوال کيا قيديوں ميں يہ جوان کون ہے ؟ اس کو زندہ کيوں چھوڑديا ؟ جواب ملا : يہ حسين (ع) کے بيٹے علي ہيں ،بيماري کے سبب چھوڑ دئے گئے ہيں ابن زياد نے کہا : کيا حسين (ع) کے بيٹے علي کو خدا نے کربلا ميں قتل نہيں کيا ؟ اب سيد سجاد خاموش کيسے رہ سکتے تھے : زنجير سنبھال کر کھڑے ہوگئے اور فرمايا : ہاں ميرا ايک اور بھائي علي تھا جس کو تيرے فوجيوں نے شہيد کرديا -ابن زياد يہ دنداں شکن جواب سن کر تلملا اٹھا اور کہا : " نہيں اسے خدا نے قتل کيا ہے " امام (ع) نے فرمايا: خدا نے سورۂ زمر( کي 42 ويں آيت ) ميں فرمايا ہے کہ اللہ موت کے وقت مرنے والے کي روح قبض کرليتا ہے اس لحاظ سے شہيدوں کي موت بھي الہي ارادۂ تکويني کے تحت ہے -ليکن ارادۂ تشريعي کے تحت نہيں ہے قاتلوں کي پيٹھ قتل کے جرم سے خالي نہيں ہوسکتي -" اب ابن زياد کے پاس کوئي جواب نہيں تھا اس نے چلا کر کہا : " يہ مجھ سے زبان لڑارہا ہے لے جاو اس کي گردن اڑادو " ( اذہبوا بہ فاضربوا عنقہ ) اب جناب زينب اٹھيں اور جناب سيد سجاد کي سپر بن گئيں : اگر اس کي گردن کاٹني ہے تو پہلے مجھے قتل کردو " امام (ع) نے پھوپھي کے جذبۂ ايثار کو ديکھتے ہوئے فرمايا پھوپھي ٹہرئے ميں اس کو جواب ديتا ہوں اور آگے بڑھ کر کہا : تو مجھے قتل کي دھمکي ديتا ہے کيا تجھے نہيں معلوم " ان القتل لنا عادۃ و کرامتنا الشہادۃ " راہ حق ميں قتل ہونا ہماري عادت اور شہيد ہونا ہماري عزت و سربلندي ہے -اس طرح اہل حرم نے کوفہ ميں اپنے مختصر قيام کے دوران کوفيوں کے دلوں ميں آگ کے وہ شعلے روشن کردئے کہ چند ہي برسوں ميں ابوعبيدہ ثقفي اور جناب مختار کي قيادت ميں وہ انقلاب برپا ہوئے کہ قاتلان حسين (ع) کے نام و نشان ہي مٹکر رہ گئے-
يعمل...
X