بسم اللہ الرحمن الرحيم
اللھم صلي علي محمد وال محمد
اللھم صلي علي محمد وال محمد
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے ايک روايت ميں فقط آپ کي غيبت کو حضرت يوسف ٴکي غيبت سے شباہت دي گئي ہے جبکہ اورمقامات پر حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے کچھ اور شباہتوں کا تذکرہ فرما يا ہے۔
اورامام جعفرصادق عليہ السلام نے سابقہ شباہتوں کا تذکرہ کئے بغير کچھ اورشباہتوں کو بيان فرمايا ہے ۔
غيبت وعدم موجودگي
واضح ترين جو شباہت يوسف کنعان اوريوسف زہرائ ٴ حضرت امام مہدي ٴ کے درميان ہے وہ غيبت کے مسئلہ ميںہے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے جناب محمد بن مسلم سے فرمايا اے محمد بن مسلم اہل بيت محمد صلوات اللہ عليہم کے قائم کي پانچ رسولوں سے شباہت ہے ۔
1۔ يونس بن متي ۔2۔يوسف ٴ بن يعقوب ٴ۔3۔ موسيٰٴ۔4۔ عيسيٰٴ۔5۔ حضرت محمدمصطفےٰ0
آپ کي حضرت يوسف ٴ سے شباہت غيبت کے حوالے سے ہے جس طرح يوسف ٴ بن يعقوب ٴ اپنے خواص و عوام اوراپنے بھائيوں سے غائب ہوئے اسي طرح حضرت امام مہدي ٴ بھي غائب ہونگے ۔
برادران حضرت يوسف ٴ غلہ خريدنے کيلئے مصر تشريف لے گئے يوسف ٴ کے دربارميں حاضر ہوتے ہيں حضرت يوسف ٴ انہيں پہلي نظرميں پہچان جاتے ہيں ليکن بھائيوں نے حضرت يوسف ٴ کو نہ پہچانا اوراس معرفت کے بغير ان سے گفتگوکرتے رہے اوران کيساتھ غلہ جات کا سودا طے کيا
جيسے قرآن حکيم ميں ہے۔
فدخلو ا عليہ وھم لہ منکرون (سورہ يوسف58)
(يوسف ٴ کے بھائي ) اس کے پاس پہنچے اس نے (يوسف ٴ ) انکو پہچان لياليکن وہ انہيں نہ پہچان سکے اسي طرح يوسف زہراٴ ئ حضر ت امام مہدي ٴ لوگوں کے درميان موجود ہيں ان کے پہلوميں راہ چلتے ہيں انکي زمينوں پر اپنے قدم مبارک رکھتے ہيں ليکن لوگ ان کو پہچانتے نہيں ہيں بہت سارے يہ خيال کرتے ہيں کہ حضرت امام عصر ٴ کي غيبت اس معني ميں ہے کہ آپ آسمانوں يا دوسرے عوالم ميں زندگي گزار تے ہيں بنابرايں حضرت امام مہدي ٴ سب کي نظروں سے اوجھل ہيں اورکوئي انہيں نہيں پاتا اسي ذہنيت سے وہ سوال ذہن ميں ابھرتاہے جو اوپر پيش کيا گياہے کہ يہ شباہت ناقص ہے بلکہ حقيقت امر يہ ہے کہ اس قسم کا تصور غلط ہے اور حقيقت سے دور ہے وہ تو لوگوں کے درميان موجود ہيں انہي بازاروں اورگليوں ميں سے گزرتے ہيں لوگ انہيں ديکھتے بھي ہيں ليکن انہيں پہچانتے نہيں ہيں۔
جس طرح جمال يوسف ٴ اورسخاوت يوسف شہرہ آفاق تھي اسي طرح يوسف زہرا ٴء ميں بھي يہ دونوں خصوصيات اپنے کمال کو پہنچي ہوئي ہيں۔
ابو نصر!ميں نے حضرت امام جعفر صادقٴ کو يہ فرماتے ہوئے سنااس امروالے حضرت امام مہدي ٴکيلئے چار انبيائ کي خصوصيات ہيں حضرت يوسف کا جمال و سخاوت آپ ميں ہے ۔
حضرت رسول اللہ نے فرمايا
بہت جلد اللہ تعاليٰ اس امت ميں ايک خليفہ کو بھيجيں گے وہ مال کو گنے بغير دوسروں کو عطاء کرے گا۔
جس کا روان والوں نے يوسف ٴ کوحاصل کيا تھا انہوں نے اسے بازار ميں معمولي قيمت پر فروخت کرديا کيونکہ وہ اس درناياب سے آگاہي نہيں رکھتے تھے اور اسے انہوں نے معمولي قيمت پر جو چند درہم کي صورت ميں تھي بيچ ڈالا جبکہ وہ اسے فروخت کرنے ميں عدم دلچسپي رکھتے تھے (يوسف 20)اسي طرح کچھ شيعہ جوحضرت امام مہدي ٴ کے مقام ومرتبہ سے آگاہ نہيں ہيں دنياپرستي اورنفساني خواہشات کي پيروي ميں مصروف ہيں انہوں نے حضرت ولي العصر ٴ کي خدمت ميں حاضر ہونے کے افتخار آميز لمحات کو اپنے امام سے اپنا تعلق و ر ا بطہ ختم کرکے گنوادياہے تاريخ نے ايسے بہت سارے افراد کے نام لکھے ہيں جنہوں نے دنياوي لالچ ميں امام ٴ کي ناراضگي مول لے لي ان ميں ايک شخص ابوطاہر محمد بن علي بن بلال ہيں اس نے دنيا وي لالچ ميں آکر ان کے پاس جو اموال حضرت امام مہدي ٴ کے موجود تھے ان اموال کو آپ کے وکيل جناب محمد بن عثمان عمري (آپ کے دوسرے نائب تھے)کے سپر دنہ کيا اوريہ دعويٰ کرديا کہ وہ خود امام عليہ السلا م کے وکيل ہيں اس جھوٹے دعوي ٰ کي بنا پر حضرت امام مہدي ٴ نے اس شخص پر اپنے دستخطوں کے ساتھ لعنت بھيجي۔
( غيبت طوسي ص 400)
جب زليخا نے جناب يوسف ٴ پرناپاکي کي تہمت ناروالگائي مصر کے بادشاہ نے الٰہي نشاني اور علا مت سے انکي بے گناہي اورپاکيزگي کو دريافت کيا۔
’’ اس دوران اس عورت(زليخا) کے گھرانے کي ايک فرد نے گواہي دي کہ اگراسکي قميض سامنے سے پھٹي ہے توہ عورت سچي ہے اوروہ مرد جھوٹاہے اوراگر اس کي قميض پيچھے سے پھٹي ہے تووہ عورت جھوٹي ہے اور وہ مرد سچا ہے جب اس نے (بادشاہ مصر نے) ديکھا تويوسف ٴ کي قميض آگے سے نہيں بلکہ پيچھے سے پھٹي ہوئي تھي اس پر بادشاہ مصر نے کہا يہ تم عورتوں کي مکاري اورحيلہ گري ہے اورتم عورتوں کي مکاري توبہت بڑي ہے ‘‘۔
(يوسف 26، 28)
اسکے باوجود بادشاہ مصر زليخا کے وسوسوں اوراسکي چال بازيوں ميں آگيا اور يوسف ٴ کو زندان ميں ڈال ديا بعد اسکے کہ انہوںنے يوسف ٴ کي پاکيزگي کي نشاني کوديکھ ليا تھا ليکن انہوں نے فيصلہ يہ کيا کہ حضرت يوسف ٴ کو کچھ عرصہ کيلئے جيل ميں ڈال دياجائے ۔ (يوسف 35)
يوسف زہرائ ٴ کے زمانہ کے ستم پيشہ لوگوںنے بھي آپ کي حقانيت کي نشانياں اورمعجزے مشاہدہ کئے ہيں اسکے باوجود انہوں نے يہ طے کيا وہ اسے قتل کر د يں ۔
رشيق کا واقعہ
رشيق نامي ايک شخص جس کا تعلق دربار سے تھا وہ کہتاہے مجھے معتمد عباسي نے دو ا و ر آ د ميو ں کے ساتھ بلايا اورہميں حکم ديا کہ ہم ميں ہر ايک ،ايک ايک گھوڑے پر سوارہوجائے اور بہت ہي ہلکا پھلکا بچھونا اپنے ہمراہ رکھيں اوراسکے علاوہ اپنے ساتھ کوئي بھي ضرور ت کي چيز نہ ليں سامرا ميں فلاں محلہ کے فلاں گھر چلے جاؤ اس گھرکے دروازہ پرايک سياہ غلام کھڑا ہوگا اس گھر پر حملہ کردينا اوراس گھرميںجو موجود ہو اسے قتل کردينا اوراسکے سرکو ميرے پاس لے آنا دستورکے مطابق ہم سامراميں اسي گھر ميں پہنچ گئے ہم نے سياہ غلام کو اس گھر کے دروازہ پر موجود پايا ہم نے اس سے سوال کيا اس گھرميں کوئي موجود ہے اس نے بے توجہي سے جواب ديا کہ اس گھر کا مالک موجود ہے ہم نے گھر پر حملہ کرديا اس گھرميں ايک کمرہ تھا جس کے دروازہ پر ايک خوبصورت پردہ لٹکا ہواتھا جب ہم نے اس پردہ کو اوپر اٹھا يا اوراندر جھانک کرديکھا توسامنے پاني کا دريا نظرآيا اس کمرے کي انتہائ پرايک بہت ہي خوبصورت خدوخال والا شخص ہے جس نے پاني کے اوپر جائے نماز کو بچھارکھا ہے اورنماز پڑھنے ميں مصروف ہے اس نے ہماري طرف بالکل توجہ نہ دي ہم ميں ايک شخص جائزہ لينے کيلئے پاني ميں داخل ہوگيا اسکا نام احمد بن عبداللہ تھا نزديک تھا کہ وہ پاني ميں غرق ہوجاتاميں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے نجات دي ليکن وہ خوف کے مارے بے ہوش ہوگيا اورايک گھنٹہ تک اسي حالت ميں رہا ميرے دوسرے ساتھي نے بھي اسي طرح کيا اور وہ بھي اسي مصيبت ميں گرفتار ہوا ميںنے صاحب خانہ سے معذرت کي اورميں نے عرض کيا خداکي قسم ميں اس واقعہ سے آگاہ نہ تھا اورمجھے پتہ نہيں تھا کہ کس کے قتل کرنے کے واسطے مجھے روانہ کيا گيا ہے ميں اس کام سے توبہ کرتاہوں ليکن اس نے ميري ان باتوں پر کوئي پرواہ نہ کي ۔
ہم متضدکے پاس واپس آگئے وہ ہماري انتظار ميں تھا اس نے دربان کو کہہ رکھا تھا کہ جيسے ہم وہاں پہنچيں ہميں محل کے اندر لے جائے ہم اسي رات اس کے پاس پہنچ گئے اورپوراقصہ اسے سنايا اس نے غصہ سے دربان سے کہا کيا تم نے اس واقعہ کو کسي اور سے توبيان نہيںکيا ہم نے کہا نہيں معتمد نے قسم اٹھا کر کہا کہ اگرا س واقعہ کو کسي کيلئے ہم نے بيان کيا تو وہ ہماري گردنيں اڑادے گا جب تک وہ زند ہ رہا ہم ميں اس قصہ کو بيان کرنے کي ہمت نہ ہوئي اس کے مرنے کے بعدہم اس واقعہ کو بيان کررہے ہيں۔ (غيبت طوسي ص 248)