إعـــــــلان

تقليص
لا يوجد إعلان حتى الآن.

حضرت سلطان العرب و العجم ثامن الائمہ عليہ الاف التحيۃ والثناء(2)

تقليص
X
 
  • تصفية - فلترة
  • الوقت
  • عرض
إلغاء تحديد الكل
مشاركات جديدة

  • حضرت سلطان العرب و العجم ثامن الائمہ عليہ الاف التحيۃ والثناء(2)

    بسم اللہ الرحمن الرحيم

    اللھم صلي علي محمد وآل محمد


    حضرت امام رضا عليہ السلام اورمجلس شہداء کربلا

    علامہ مجلسي بحارالانوارميں لکھتے ہيں کہ شاعرآل محمد،دعبل خزاعي کابيان ہے کہ ايک مرتبہ عاشورہ کے دن ميں حضرت امام رضاعليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوا،توديکھاکہ آپ اصحاب کے حلقہ ميں انتہائي غمگين وحزيں بيٹھے ہوئے ہيں مجھے حاضرہوتے ديکھ کر فرمايا،آؤآؤہم تمہاراانتظارکررہے ہيں ميںقريب پہنچاتوآپ نے اپنے پہلوميں مجھے جگہ دے کرفرمايا کہ اے دعبل چونکہ آج يوم عاشوراہے اوريہ دن ہمارے ليے انتہائي رنج وغم کادن ہے لہذا تم ميرے جد مظلوم حضرت امام حسين عليہ السلام کے مرثيہ سے متعلق کچھ شعرپڑھو،اے دعبل جوشخص ہماري مصيبت پرروئے يارلائے اس کااجرخداپرواجب ہے ،اے دعبل جس شخص کي آنکھ ہمارے غم ميں ترہو وہ قيامت ميں ہمارے ساتھ محشورہوگا ،
    اے دعبل جوشخص ہمارے جدنامدارحضرت سيدالشہداء عليہ السلام کے غم ميں روئے گا خدااس کے گناہ بخش دے گاغ”
    يہ فرما کر امام عليہ السلام نے اپني جگہ سے اٹھ کر پردہ کھينچااورمخدرات عصمت کوبلاکراس ميں بٹھادياپھرآپ ميري طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے ہاں دعبل! ابے ميرے جدامجدکامرثيہ شروع کرو، دعبل کہتے ہيں کہ ميرادل بھرآيااورميري آنکھوں سے آنسوجاري تھے اورآل محمدميں رونے کاکہرام عظيم برپاتھا صاحب درالمصائب تحريرفرماتے ہيں کہ دعبل کامرثيہ سن کرمعصومہ قم جناب فاطمہ ہميشرہ حضرت امام رضاعليہ السلام اس قدرروئيں کہ آپ کوغش آگياغ”
    اس اجتماعي طريقہ سے ذکرحسيني کومجلس کہتے ہيں اس کاسلسلہ عہدامام رضاميں مدينہ سے شروع ہوکرمروتک جاري رہا،علامہ علي نقي لکھتے ہيں کہ اب امام رضاعليہ السلام کوتبليغ حق کے ليے نام حسين کي اشاعت کے کام کوترقي دينے کابھي پوراموقع حاصل ہوگياتھا جس کي بنياداس کے پہلے حضرت امام محمدباقر عليہ السلام اورامام جعفرصادق عليہ السلام قائم کرچکے تھے مگروہ زمانہ ايساتھا کہ جب امام کي خدمت ميں وہي لوگ حاضرہوتے تھے جوبحيثيت امام يابحيثيت عالم دين آپ کے ساتھ عقيدت رکھتے تھے اوراب امام رضاعليہ السلام توامام روحاني بھي ہيں اورولي عہدسلطنت بھي، اس ليے آپ کے دربارميں حاضرہونے والوں کادائرہ وسيع ہےغ”
    مرو،وہ مقام ہے جوايران کے تقريبا وسط ميں واقع ہے ہرطرف کے لوگ يہاں آتے ہيں اوريہاں يہ عالم کہ ادھر محرم کاچاند نکلااورآنکھوں سے آنسوجاري ہوگئے دوسروں کوبھي ترغيب وتحريص کي جانے لگي کہ آل محمدکے مصائب کويادکرواوراثرات غم کوظاہرکرو يہ بھي ارشادہونے لگا کہ جواس مجلس ميں بيٹھے جہاں ہماري باتيں زندہ کي جاتي ہيں اس کادل مردہ نہ ہوگااس دن کے جب سب کے دل مردہ ہوں گےغ”
    تذکرہ امام حسين کے ليے جومجمع ہو،اس کانام اصطلاحي طورپرمجلس اسي امام رضاعليہ السلام کي حديث سے ہي ماخوذہے آپ نے عملي طورپربھي خودمجلسيں کرنا شروع کرديں جن ميں کبھي خودذاکرہوئے اوردوسرے سامعين جيسے ريان بن شبيب کي حاضري کے موقع پرآپ نے مصائب امام حسين عليہ السلام بيان فرمائے اورکبھي عبداللہ بن ثابت يادعبل خزاعي ايسے کسي شاعرکي حاضري کے موقع پراس شاعرکوحکم ہواکہ تم ذکرامام حسين ميں اشعارپڑھووہ ذاکرہوا، اورحضرت سامعين ميں داخل ہوئے الخغ”

    مامون کي طلبي سے قبل امام عليہ السلام کي روضہ رسول پرفرياد

    ابومخنف بن لوط بن يحي خزاعي کابيان ہے کہ حضرت امام موسي کاظم کي شہادت کے بعد 15/ محرم الحرام شب يک شنبہ کوحضرت امام رضاعليہ السلام نے روضہ رسول خداپرحاضري دي وہاں مشغول عبادت تھے کہ آنکھ لگ گئي، خواب ميں ديکھاکہ حضرت رسول کريم بالباس سياہ تشريف لائے ہيں اورسخت پريشان ہيں امام عليہ السلام نے سلام کياحضورنے جواب سلام دے کرفرمايا،ائے فرزند،ميں اورعلي وفاطمہ ،حسن وحسين سب تمہارے غم ميں نالاں وگرياں ہيں اورہم ہي نہيں فرزندم زين العابدين ،محمدباقر،جعفرصادق اورتمہارے پدرموسي کاظم سب غمگين اوررنجيدہ ہيں،ائے فرزندعنقريب مامون رشيدتم کوزہرسے شہيدکرے گا،يہ ديکھ کرآپ کي آنکھ کھل گئي ،اورآپ زارزاررونے لگے پھرروضہ مبارک سے باہرآئے ايک جماعت نے آپ سے ملاقات کي اورآپ کوپريشان ديکھ کرپوچھاکہ مولااضطراب کي وجہ کياہے فرماياابھي ابھي جدنامدارنے ميري شہادت کي خبردي ہے ائے ابوصلت دشمن مجھے شہيدکرناچاہتاہے اورميں خداپربھروسہ کرتاہوں جومرضي معبودہووہي ميري مرضي ہے اس خواب کے تھوڑے عرصہ بعد مامون رشيدکالشکرمدينہ پہنچ گيااوروہ امام عليہ السلام کو اپني سياسي غرض کرنے کے ليے وہاں سے دارالخلافت ”مرو“ ميں لے آيا(کنزالانساب ص 86) غ”

    امام رضاعليہ السلام کي مدينہ سے مروميں طلبي

    علامہ شبلنجي لکھتے ہيں کہ حالات کي روشني ميں مامون نے اپنے مقام پريہ قطعي فيصلہ اورعزم بالجزم کرلينے کے بعد کہ امام رضاعليہ السلام کووليعہد خلافت بنائے گا اپنے وزيراعظم فضل بن سہل کوبلابھيجا اوراس سے کہاکہ ہماري رائے ہے کہ ہم امام رضاکوولي عہدي سپردکرديں تم خودبھي اس پرسوچ وبچارکرو، اوراپنے بھائي حسن بن سہل سے مشورہ کروان دونوں نے آپس ميں تبادلہ خيال کرنے کے بعد مامون کي بارگاہ ميں حاضري دي، ان کامقصدتھا کہ مامون ايسانہ کرے ورنہ خلافت آل عباس سے آل محمدميں چلي جائے گي ان لوگوں نے اگرچہ کھل کرمخالفت نہيں کي،ليکن دبے لفظوں ميں ناراضگي کااظہارکيا مامون نے کہاکہ ميرا فيصلہ اٹل ہے اورميں تم دونوں کو حکم ديتاہوں کہ تم مدينہ جاکرامام رضاکواپنے ہمراہ لاؤ(حکم حاکم مرگ مفاجات) آخرکاريہ دونوں امام رضاکي خدمت ميں مقام مدينہ منورہ حاضرہوئے اورانہوں نے بادشاہ کاپيغام پہنچاياغ”
    حضرت امام علي رضانے اس عرضداشت کومستردکرديااورفرماياکہ ميں اس امرکے ليے اپنے کوپيش کرنے سے معذورہوں ليکن چونکہ بادشاہ کاحکم تھا کہ انہيں ضرورلاؤ اس ليے ان دونوں نے بے انتہااصرارکيااورآپ کے ساتھ اس وقت تک لگے رہے جب تک آپ نے مشروط طورپروعدہ نہيں کرليا (نورالابصارص 41) غ”

    امام رضاعليہ السلام کي مدينہ سے روانگي

    تاريخ ابوالفداء ميں ہے کہ جب امين قتل ہواتومامون سلطنت عباسيہ کامستقل بادشاہ بن گيايہ ظاہرہے کہ امين کے قتل ہونے کے بعد سلطنت مامون کے پائے نام ہوگئي مگريہ پہلے کہاجاچکاہے کہ امين ننہيال کي طرف سے عربي النسل تھا ،اورمامون عجمي النسل تھا امين کے قتل ہونے سے عراق کي عرب قوم اورارکان سلطنت کے دل مامون کي طرف سے صاف نہيں ہوسکتے تھے بلکہ وہ ايک غم وغصہ کي کيفيت محسوس کرتے تھے دوسري طرف خودبني عباس ميں سے ايک بڑي جماعت جوامين کي طرف دارتھي اس سے بھي مامون کوہرطرح خطرہ لگاہواتھاغ”
    اولادفاطمہ ميں سے بہت سے لوگ جووقتافوقتابني عباس کے مقابل ميں کھڑے ہوتے رہتے تھے وہ خواہ قتل کرديے گئے ہوں ياجلاوطن کئے گئے ہوں ياقيد رکھے گئے ہوں ان کے موافق جماعت تھي جواگرچہ حکومت کاکچھ بگاڑنہ سکتي تھي مگردل ہي دل ميں حکومت بن عباس سے بيزارضرورتھي ايران ميں ابومسلم خراساني نے بني اميہ کے خلاف جواشتعال پيداکياوہ ان مظالم ہي کوياددلاکرجوبني اميہ کے ہاتھوں حضرت امام حسين عليہ السلام اوردوسرے بني فاطمہ کے ساتھ کيے تھے اس سے ايران ميں اس خاندان کے ساتھ ہمدردي کاپيداہونافطري تھا درميان ميں بني عباس نے اس سے غلط فائدہ اٹھايامگراتني مدت ميں کچھ نہ کچھ توايرانيوں کي آنکھيں بھي کھل گئي ہوں گي کہ ہم سے کہاگياتھاکيااوراقتدارکن لوگوں نے حاصل کرليا، ممکن ہے ايراني قوم کے ان رجحانات کا چرچامامون کے کانوں تک بھي پہنچاہواب جس وقت کہ ا مين کے قتل کے بعد وہ عرب قوم پراوربني عباس کے خاندان پربھروسہ نہيں کرسکتاتھا اوراسے ہروقت اس حلقہ سے بغاوت کاانديشہ تھا،تواسے سياسي مصلحت اسي ميں معلوم ہوئي کہ عرب کے خلاف عجم اوربني عباس کے خلاف بني فاطمہ کواپنالياجائے،اورچونکہ طرزعمل ميں خلوص سمجھانہيں جاسکتا اوروہ عام طبائع پراثرنہيں ڈال سکتااگريہ نماياں ہوجائے کہ وہ سياسي مصلحتوں کي بناپرہے اس لے ضرورت ہوئي کہ مامون مذہبي حيثيت سے اپني شيعت نوازي اورولائے اہلبيت کے چرچے عوام کے حلقوں ميں پھيلائے اوريہ دکھلائے کہ وہ انتہائي نيک نيتي پرقائم ہے اب ”حق بہ حقدار رسيد“ کے مقولہ کوسچابناناچاہتاہےغ”

    اس سلسلہ ميں جناب شيخ صدوق اعلي اللہ مقامہ نے تحريرفرماياہے کہ اس نے اپني زندگي کي حکايت بھي شائع کي کہ جب امين کااورميرامقابلہ تھا،اوربہت نازک حالت تھي اورعين اسي وقت ميرے خلاف سيستان اورکرمان ميں بھي بغاوت ہوگئي تھي اورخراسان ميں بھي بے چيني پھيلي ہوئي تھي اورفوج کي طرف سے بھي اطمينان نہ تھا اوراس سخت اوردشوارماحول ميں ،ميں نے خداسے التجاکي اورمنت ماني کہ اگريہ سب جھگڑے ختم ہوجائيں اورميں بام خلافت تک پہنچوں تواس کواس کے اصل حقداريعني اولادفاطمہ ميں سے جواس کااہل ہے اس تک پہنچادوں گا اسي نذرکے بعدسے ميرے سب کام بننے لگے ،اورآخر تمام دشمنوں پرمجھے فتح حاصل ہوئيغ”
    يقينايہ واقعہ مامون کي طرف سے اس ليے بيان کياگياکہ اس کاطرزعمل خلوص نيت اورحسن نيت پربھي مبني سمجھاجائے ،يوں توجواہلبيت کے کھلے ہوئے دشمن سخت سے سخت تھے وہ بھي ان کي حقيقت اورفضيلت سے واقف تھے اوران کي عظمت کوجانتے تھے مگرشيعيت کے معني صرف يہ جانناتونہيں ہيں بلکہ محبت رکھنا اوراطاعت کرناہيں اورمامون کے طرزعمل سے يہ ظاہرہے کہ وہ اس دعوے شيعيت اورمحبت اہل بيت کاڈھنڈوراپيٹنے کے باوجودخودامام کي اطاعت نہيں کرنا چاہتا تھا،بلکہ امام کواپنے منشاکے مطابق چلانے کي کوشش تھي ولي عہدبننے کے بارے ميں آپ کے اختيارات کوبالکل سلب کردياگيا اورآپ کومجبوربنادياگيا تھا اس سے ظاہرہے کہ يہ ولي عہدي کي تفويض بھي ايک حاکمانہ تشددتھا جواس وقت شيعيت کے بھيس ميں امام کے ساتھ کياجارہاتھاغ”

    امام رضاعليہ السلام کاولي عہدکوقبول کرنابالکل ويساہي تھا جيساہارون کے حکم سے امام موسي کاظم کاجيل خانہ ميں چلاجانا اسي ليے جب امام رضاعليہ السلام مدينہ سے خراسان کي طرف روانہ ہورہے تھے توآپ کے رنج وصدمہ اوراضطراب کي کوئي حدنہ تھي روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کاوہي عالم تھا جوحضرت امام حسين عليہ السلام کامدينہ سے روانگي کے وقت تھا ديکھنے والوں نے ديکھاکہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندرجاتے ہيں اورنالہ وآہ کے ساتھ امت کي شکايت کرتے ہيں پھرباہرنکل کرگھرجانے کاارادہ کرتے ہيں اورپھردل نہيں مانتاپھرروضہ سے جاکرلپٹ جاتے ہيں يہ ہي صورت کئي مرتبہ ہوئي،راوي کا بيان ہے کہ ميں حضرت کے قريب گياتوفرماياائے محول! ميں اپنے جدامجدکے روضے سے بہ جبرجدا کياجارہاہوں اب مجھ کويہاں آنا نصيب نہ ہوگا
    (سوانح امام رضاجلد 3 ص 7) غ”

    محول شيباني کابيان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گياکہ حضرت امام علي رضا عليہ السلام اپنے جدبزرگوارکے روضہ اقدس سے ہميشہ کےلے وداع ہوئے تو ميں نے ديکھاکہ آپ نے تابانہ اندرجاتے ہيں اوربانالہ وآہ باہرآتے ہيں اورظلمہ امت کي شکايت کرتے ہيں ياباہرآکر گريہ وبکافرماتے ہيں اورپھراندرواپس چلے جاتے ہيں آپ نے چندبارايساہي کيااورمجھ سے نہ رہاگيااورميں نے حاضرہوکرعرض کي مولااضطراب کي کياوجہ ہے ؟ فرماياائے محول ! ميں اپنے نانا کے روضہ سے جبراجداکياجارہاہوں مجھے اس کے بعداب يہاں آنانصيب نہ ہوگاميں اسي مسافرت اورغريب الوطني ميں شہيدکردياجاؤں گا،اورہارون رشيد کے مقبرہ ميں مدفون ہوں گااس کے بعدآپ دولت سراميں تشريف لائے اورسب کوجمع کرکے فرماياکہ ميں تم سے ہميشہ کے ليے رخصت ہورہاہوں يہ سن کر گھرميں ايک عظيم کہرام بپاہوگيااورسب چھوٹے بڑے رونے لگے ، آپ نے سب کوتسلي دي اورکچھ ديناراعزاميں تقسيم کرکے راہ سفراختيار فرماليا ايک روايت کي بناپر آپ مدينہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے اوروہاں طواف کرکے خانہ کعبہ کورخصت فرماياغ”

    حضرت امام رضاعليہ السلام کانيشاپورميں ورودمسعود
    رجب 200 ہجري ميں حضرت مدينہ منورہ سے مرو”خراسان“ کي جانب روانہ ہوئے اہل وعيال اورمتعلقين سب کومدينہ منورہ ہي ميں چھوڑا اس وقت امام محمد تقي عليہ السلام کي عمرپانچ برس کي تھي آپ مدينہ ہي ميں رہے مدينہ سے روانگي کے وقت کوفہ اورقم کي سيدھي راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغيرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پيش نظراختيارکياگياکہ کہيں عقيدت مندان امام مزاحمت نہ کريں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے يہ لوگ نيشاپور کے نزديک جا پہنچےغ”
    مورخين لکھتے ہيں کہ جب آپ کي مقدس سواري نيشاپوري کے قريب پہنچي توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بيرون شہر حاضرہوکرآپ کي رسم استقبال اداکي ، داخل شہرہوئے توتمام خوردوبزرگ شوق زيارت ميں امنڈپڑے،مرکب عالي جب مربعہ شہر(چوک) ميں پہنچاتو خلاق سے زمين پرتل رکھنے کي جگہ نہ تھي اس وقت حضرت امام رضاقاطرنامي خچرپرسوارتھے جس کاتمام سازوسامان نقرئي تھاخچرپرعماري تھي اوراس پردونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اوربروايتے چھتري لگي ہوئي تھي اس وقت امام المحدثين حافظ ابوزرعہ رازي اورمحمدن بن اسلم طوسي آگے آگے اوران کے پيچھے اہل علم وحديث کي ايک عظيم جماعت حاضرخدمت ہوئي اورباين کلمات امام عليہ السلام کومخاطب کيا”اے جميع سادات کے سردار،اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکيزگي ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ ميں اپنے ديدارکاموقع ديجئے اورکوئي حديث اپنے جدنامدارکي بيان فرمائيے يہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،يحي بن يحي اوراسحاق بن راہويہ نے آپ کے خاطرکي باگ تھام ليغ”
    ان کي استدعا سن کرآپ نے سواري روک دئيے جانے کے ليے اشارہ فرمايا، اور اشارہ کيا کہ حجاب اٹھا د ئيے جائيں فوراتعميل کي گئي حاضرين نے جونہي وہ نوراني چہرہ اپنے پيارے رسول کے جگرگوشہ کاديکھاسينوں ميںدل بيتاب ہوگئے دوزلفين نورانورپر مانندگيسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹي ہوئي تھيں کسي کويارائے ضبط باقي نہ رہاوہ سب کے سب بے اختيارڈھاريں مارکررونے لگے بہتوں نے اپنے کپڑے پھاڑڈالے کچھ زمين پرگرکرلوٹنے لگے بعض سواري کے گردوپيش گھومنے اورچکرلگانے لگے اورمرکب اقدس کي زين ولجام چومنے لگے اورعماري کابوسہ دينے لگے آخرمرکب عالي کے قدم چومنے کے اشتياق ميں درانہ بڑھے چلے آتے تھے غرضکہ عجيب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کوديکھنے سے کسي کوسيري نہيں ہوئي تھي ٹکٹکي لگائے رخ انورکي طرف نگراں تھے يہاں تک دوپہرہوگئي اوران کے موجودہ اشتياق وتمناکي پرجوشيوں ميں کوئي کمي نہيں آئي اس وقت علماء وفضلاء کي جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے ليے آزارنہ بنو، ان کي استدعاپرقدرے شوروغل تھما تو امام عليہ السلام نے فرمايا:
    ميرے پدربزرگوارحضرت امام موسي کاظم نے مجھ سے بيان فرمايااوران سے امام جعفرصادق عليہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زين العابدين نے اوران سے امام حسين نے اوران سے حضرت علي مرتضي نے اوران سے حضرت رسول کريم جناب محمدمصطفي صلعم نے اوران سے جناب جبرئيل امين نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرماياکہ ”لاالہ الااللہ “ ميراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاري کرے گا ميرے قلعہ ميں داخل ہوجائے گا اورجوميرے قلعہ ميں داخل ہوگا ميرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گاغ”
    يہ کہہ کرآپ نے پردہ کھينچواديا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمايا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گاليکن اس کے کہنے اورنجات پانے ميں چندشرطيں ہيں جن ميں سے ايک شرط ميں بھي ہوں يعني اگرآل محمدکي محبت دل ميں نہ ہوگي تولاالہ الااللہ کہناکافي نہ ہوگا

    علماء نے ”تاريخ نيشابور“ کے حوالے سے لکھاہے کہ اس حديث کے لکھنے ميں مفرددواتوں کے علاوہ 24 ہزارقلمدان استعمال کئے گئے احمدبن حنبل کاکہناہے کہ يہ حديث جن اسناداوراسماء کے ذريعہ سے بيان فرمائي گئي ہے اگرانہيں اسماء کوپڑھ کر مجنون پردم کياجائے تو”لافاق من جنونہ“ ضروراس کاجنون جاتارہے گا اوروہ اچھاہوجائے گاعلامہ شبلنجي نورالابصارميں بحوالہ ابوالقاسم تضيري لکھتے ہيں کہ ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس سلسلہ حديث کوسناتواسے سونے کے پاني سے لکھواکراپنے پاس رکھ ليااورمرتے وقت وصيت کي کہ اسے ميرے کفن ميں رکھ دياجائے چنانچہ ايساہي کياگيامرنے کے بعداس نے خواب ميں بتاياکہ خداوندعالم نے مجھے ان ناموں کي برکت سے بخش دياہے اورميں بہت آرام کي جگہ ہوں غ”
    مؤلف کہتاہے کہ اسي فائدہ کے ليے شيعہ اپنے کفن ميں خواب نامہ کے طورپران اسماء کولکھ کررکھتے ہيں بعض کتابوں ميں ہے کہ نيشاپورميں آپ سے بہت سے کرامات نمودارہوئےغ”

    شہرطوس ميں آپ کانزول وورود
    جب اس سفرميں چلتے چلتے شہرطوس پہنچے تووہاںديکھاکہ ايک پہاڑسے لوگ پتھرتراش کرہانڈي وغيرہ بناتے ہيں آپ اس سے ٹيک لگاکرکھڑے ہوگئے اورآپ نے اس کے نرم ہونے کي دعاکي وہاں کے باشندوں کاکہناہے کہ اس پہاڑکاپتھربالکل نرم ہوگيااوربڑي آساني سے برتن بننے لگےغ”

    امارضا عليہ السلام کادارالخلافہ مروءميں نزول
    امام عليہ السلام طے مراحل اورقطع منازل کرنے کے بعد جب مروپہنچے جسے سکندرذوالقرنين نے بروايت معجم البلدان آبادکياتھا اورجواس وقت دارالسلنطت تھا تومامون نے چندروزضيافت تکريم کے مراسم اداکرنے کے بعد قبول خلافت کاسوال پيش کيا حضرت نے اس سے اسي طرح انکارکيا جس طرح اميرالمومنين چوتھے موقعہ پرخلافت پيش کئے جانے کے وقت انکارفرمارہے تھے مامون کوخلافت سے دستبردارہونا ،درحقيقت منظورنہ تھا ورنہ وہ امام کواسي پرمجبورکرتاغ”
    چنانچہ جب حضرت نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمايا،تواس نے وليعہدي کاسوال پيش کيا حضرت اس کے بھي انجام سے ناواقف نہ تھے نيزبخوشي جابرحکومت کي طرف سے کوئي منصب قبول کرنا آپ کے خانداني اصول کے خلاف تھا حضرت نے اس سے بھي انکارفرمايا مگراس پرمامون کااصرارجبرکي حدتک پہنچ گيا اوراس نے صاف کہہ دياکہ ”لابدمن قبولک“ اگرآپ اس کومنظورنہيں کرسکتے تواس وقت آپ کواپني جان سے ہاتھ دھوناپڑے گا جان کاخطرہ قبول کياجاسکتاہے جب مذہبي مفادکاقيام جان دينے پرموقوف ہوورنہ حفاظت جان شريعت اسلام کابنيادي حکم ہے امام نے فرمايا، يہ ہے توميں مجبورا قبول کرتاہوں مگرکاروبارسلطنت ميںبالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگرکسي بات ميں مجھ سے مشورہ لياجائے تونيک مشورہ ضروردوں گا غ”
    اس کے بعديہ ولي عہدي صرف برائے نام سلطنت وقت کے ايک ڈھکوسلے سے زيادہ کوئي وقعت نہ رکھتي تھي جس سے ممکن ہے کچھ عرصہ تک سياسي مقصد ميں کاميابي حاصل کرلي گئي ہومگرامام کي حيثيت اپنے فرايض کے انجام دينے ميں بالکل وہ تھي جوان کے پيش روحضرت علي مرتضي اپنے زمانے کے بااقتدارطاقتوں کے ساتھ اختيارکرچکے تھے جس طرح ان کاکبھي کبھي مشورہ ديدنا ان حکومتوں کو صحيح وناجائزنہيں بناسکتا ويسے ہي امام رضاعليہ السلام کااس نوعيت سے وليعہدي کاقبول فرمانا اس سلطنت کے جوازکاباعث نہيں ہوسکتاتھا صرف مامون کي ايک راج ہٹ تھي جوسياسي غرض کے پيش نظراس طرح پوري ہوگئي مگرامام نے اپنے دامن کوسلطنت ظلم کے اقدامات اورنظم ونسق سے بالکل الگ رکھاغ”
    تواريخ ميں ہے کہ مامون نے حضرت امام رضاعليہ السلام سے کہاکہ شرطيں قبول کرليں اس کے بعدآپ نے دونوں ہاتھوں کوآسمان کي طرف بلندکئے اور بارگاہ اہديت ميں عرض کي پروردگار توجانتاہے کہ اس امرکوميں نے بہ مجبوروناچاري اورخوف قتل کي وجہ سے قبول کرلياہےغ”
    خداونداتوميرے اس فعل پرمجھ سے اسي طرح مواخذہ نہ کرناجس طرح جناب يوسف اورجناب دانيال سے بازپرس نہيں فرمائي اس کے بعدکہاميرے پالنے والے تيرے عہدکے سواکوئي عہدنہيں اورتيري عطاکي ہوئي حيثيت کے سواکوئي عزت نہيں خداياتومجھے اپنے دين پرقائم رہنے ک توفيق عنايت فرما، خواجہ محمدپارساکاکہناہے کہ وليعہدي کے وقت آپ رورہے تھے ملاحسين لکھتے ہيں کہ مامون کي طرف سے اصراراور حضرت کي طرف سے انکارکاسلسلہ دوماہ جاري رہا اس کے بعدولي عہدي قبول کي گئيغ”

    جلسلہ وليعہدي کاانعقاد

    يکم رمضان 201 ھجري بروزپنجشنبہ جلسہ وليعہدي منعقدہوا،بڑي شان وشوکت اورتزک واحتشام کے ساتھ يہ تقريب عمل ميں لائي گئي سب سے پہلے مامون نے اپنے بيٹے عباس کواشارہ کيااوراس نے بيعت کي، پھراورلوگ بيعت سے شرفياب ہوئے سونے اورچاندي کے سکے سرمبارک پرنثارہوئے اورتمام ارکان سلطنت اورملازمين کوانعامات تقسيم ہوئے مامون نے حکم دياکہ حضرت کے نام کاسکہ تيارکياجائے، چنانچہ درہم وديناپرحضرت کے نام کانقش ہوا، اورتمام قلمروميں وہ سکہ چلاياگياجمعہ کے خطبہ ميں حضرت کانام نامي داخل کياگياغ”
    يہ ظاہرہے کہ حضرت کے نام مبارک کاسکہ عقيدت مندوں کے ليے تبرک اورضمانت کي حيثيت رکھتاتھا اس سکہ کوسفروحضرميں حرزجان کے ليے ساتھ رکھنا يقيني امرتھا صاحب جنات الخلودنے بحروبرکے سفرميں تحفظ کے ليے آپ کے توسل کاذکرکياہے اسي کي يادگارميں بطورضمانت بعقيدہ تحفظ ہم اب بھي سفر ميں بازوپرامام ضامن ثامن کاپيسہ باندھتے ہيںغ”
    علامہ شبلي نعماني لکھتے ہيں کہ 33 ہزارعباسي مردوزن وغيرہ کي موجودگي ميں آپ کووليعہدخلافت بنادياگيا اس کے بعداس نے تمام حاضرين سے حضرت امام علي رضاکے ليے بيعت لي اوردربارکالباس بجائے سياہ کے سبزقراردياگيا جوسادات کاامتيازي لباس تھا فوج کي وردي بھي بدل دي گئي تمام ملک ميں احکام شاہي نافذہوئے کہ مامون کے بعدعلي رضاتخت وتاج کے مالک ہيں اوران کالقب ہے ”الرضامن آل محمد“ حسن بن سہل کے نام بھي فرمان گياکہ ان کے ليے بيعت عام لي جائے اورعموما اہل فوج وعمائدبني ہاشم سبزرنگ کے پھرہرے اورسبزکلاہ وقبائيں استعمال کريںغ”
    علامہ شريف جرجاني نے لکھاہے کہ قبول وليعہدي کے متعلق جوتحريرحضرت امام علي رضاعليہ السلام نے مامون کولکھي اس کامضمون يہ تھا کہ ”چونکہ مامون نے ہمارے ان حقوق کوتسليم کرلياہے جن کوان کے آباؤاجدادنے نہيں پہچاناتھا لہذاميں نے اس کي درخواست ولي عہدي قبول کرلي اگرچہ جفروجامعہ سے معلوم ہوتاہے کہ يہ کام انجام کونہ پہنچے گا“غ”
    علامہ شبلنجي لکھتے ہيں کہ قبول وليعہدي کے سلسلہ ميں آپ نے جوکچھ تحريرفرماياتھا اس پرگواہ کي حيثيت سے فضل بن سہل ،سہل بن فضل ،يحي بن اکثم، عبداللہ بن طاہر، ثمامہ بن اشرس،بشربن معتمر،حمادبن نعمان وغيرہم کے دستخط تھے انہوں نے يہ بھي لکھاہے کہ امام رضاعليہ السلام نے اس جلسہ وليعہدي ميں اپنے مخصوص عقيدت مندوں کوقريب بلاکرکان ميں فرماياتھا کہ اس تقريب پردل ميں خوشي کوجگہ نہ دو ملاحظہ ہوصواعق محرقہ ص 122 ، مطالب السول ص 282 ، نورالابصار ص 142 ، اعلام الوري ص 193 ، کشف الغمہ ص 112 ، جنات الخلودص 31 ،المامون ص 82 ، وسيلة النجات ص 379 ، ارحج المطالب ص 454 ، مسندامام رضا ص 7 ، تاريخ طبري ،شرح مواقف ،تاريخ آئمہ ص 472 ،تاريخ احمدي ص 354 ،شواہدالنبوت، ينابع المودة ،فصل الخطاب ،حلية الاوليا، روضة الصفا، عيون اخباررضا، دمعہ ساکبہ ، سوانح امام رضاغ”

    حضرت امام رضاعليہ السلام کي وليعہدي کا دشمنوں پر اثر
    تاريخ اسلام ميں ہے کہ امام رضاعليہ السلام کي وليعہدي کي خبرسن کربغدادکے عباسي يہ خيال کرکے کہ خلافت ہمارے خاندان سے نکل چکي ہے کمال دل سوختہ ہوئے اورانہوں نے ابراہيم بن مہدي کوبغداکے تخت پربٹھاديااورمحرم 202 ہجري ميں مامون کي معزولي کااعلان کرديا بغداداوراس کے نواح ميں بالکل بد نظمي پھيل گئي لچے غنڈے دن دھاڑے لوٹ مارکرنے لگے جنوبي عراق اورحجازميں بھي معاملات کي حالت ايسي ہي خراب ہورہي تھي فضل وزيراعظم سب خبروں کوبادشاہ سے پوشيدہ رکھتاتھا مگرامام رضاعليہ السلام نے اسے خبردارکرديا بادشاہ وزيرکي طرف سے بدگمان ہوگيامامون کوجب ان شورشوں کي خبرہوئي توبغدادکي طرف روانہ ہوگيا سرخس ميں پہنچ کراس نے فضل بن سہل وزيرسلطنت کو حمام ميں قتل کراديا(تاريخ اسلام جلد 1 ص 61) غ”
    شمس العلماء شبلي نعماني حضرت امام رضاکي بيعت وليعہدي کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ اس انوکھے حکم نے بغدادميں ايک قيامت انگيزہلچل مچادي اورمامون سے مخالفت کاپيمانہ لبريزہوگيا بعضوں نے (سبزرنگ وغيرہ کے اختيارکرنے کے حکم کي بہ جبرتعميل کي مگرعام صدايہي تھي کہ خلافت خاندان عباس کے دائرہ سے باہرنہيں جاسکتي (المامون ص 82) غ”
    علامہ شبلنجي لکھتے ہيں کہ حضرت امام رضاعليہ السلام جب ولي عہدخلافت مقررکئے جانے لگے مامون کے حاشيہ نشين سخت بدظن اوردل تنگ ہوگئے اوران پريہ خوف چھاگياکہ اب خلافت بني عباس سے نکل کر بني فاطمہ کي طرف چلي جائے گي اوراسي تصورنے انہيں حضرت امام رضاعليہ السلام سے سخت متنفرکرديا (نورالابصارص 143) غ”

    واقعہ حجاب
    مورخين لکھتے ہيں کہ اس واقعہ وليعہدي سے لوگوں ميں اس درجہ بغض وحسداورکينہ پيداہوگياکہ وہ لوگ معمولي معمولي باتوں پراس کامظاہرہ کرديتے تھے علامہ شبلنجي اورعلامہ ابن طلحہ شافعي لکھتے ہيں کہ حضرت امام رضاعليہ السلام کاوليعہدي کے بعديہ اصول تھا کہ آپ مامون سے اکثرملنے کے ليے تشريف لے جاياکرتے تھے اورہوتايہ تھا کہ جب آپ دہليزکے قريب پہنچتے تھے توتمام دربان اورخدام آپ کي تعظيم کے ليے کھڑے ہوجاتے تھے اورسلام کرکے پردہ در اٹھاياکرتے تھے ايک دن سب نے مل کرطے کرليا کہ کوئي پردہ نہ اٹھائے چنانچہ ايساہي ہوا جب امام عليہ السلام تشريف لائے توحجاب نے پردہ نہيں اٹھايامطلب يہ تھا کہ اس سے امام کي توہين ہوگي، ليکن اللہ کے ولي کوکوئي ذليل نہيں کرسکتاجب ايساواقعہ آياتوايک تندہوانے پرداہ اٹھايااورامام داخل دربارہوگئے پھرجب آپ واپس تشريف لائے توہوانے بدستورپردہ اٹھانے ميں سبقت کي اسي طرح کئي دن تک ہوتارہا بالآخرہ وہ سب کے سب شرمندہ ہوگئے اورامام عليہ السلام کي خدمت مثل سابق کرنے لگے (نورالابصارص 143 ،مطالب السؤل ص 282 ،شواہدالنبوت ص 197) غ”

    حضرت امام رضاعليہ السلام اورنمازعيد
    ولي عہدي کوابھي زيادہ دن نہ گزرے تھے کہ عيدکاموقع آگيامامون نے حضرت سے کہلابھيجاکہ آپ سواري پرجاکرلوگوں کونمازعيدپڑھائيں حضرت نے فرماياکہ ميں نے پہلے ہي تم سے شرط کرلي ہے کہ بادشاہت اورحکومت کے کسي کام ميں حصہ نہيں لوں گااورنہ اس کے قريب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعيدسے بھي معاف کردوتوبہترہے ورنہ ميں نمازعيدکے لے اسي طرح جاؤں گا جس طرح ميرے جدامجدحضرت محمد رسول اللہ صلعم تشريف لے جاياکرتے تھے مامون نے کہاکہ آپ کواختيارہے جس طرح چاہيں جائيں اس کے بعداس نے سواروں اورپيادوں کوحکم دياکہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوںغ”
    جب يہ خبرشہرميں مشہورہوئي تولوگ عيدکے روزسڑکوں اورچھتوں پرحضرت کي سواري کي شان ديکھنے کوجمع ہوگئے، اکي بھيڑلگ گئي عورتوں اورلڑکوں سب کوآرزو تھي کہ حضرت کي زيارت کريں اورآفتاب نکلنے کے بعدحضرت نے غسل کيااورکپڑے بدلے، سفيدعمامہ سرپرباندھا،عطرلگايااورعصاہاتھ ميں لے کرعيدگاہ جانے پرآمادہ ہوگئے اس کے بعدنوکروں اورغلاموں کوحکم دياکہ تم بھي غسل کرکے کپڑے بدل لواوراسي طرح پيدل چلوغ”
    اس انتظام کے بعدحضرت گھرسے باہرنکلے پائجامہ آدھي پنڈلي تک اٹھاليا کپڑوں کوسميٹ ليا، ننگے پاؤں ہوگئے اورپھردوتين قدم چل کرکھڑے ہوگئے اورسرکو آسمان کي طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اورفوج کے سپاہيوں نے بھي تکبرکہي راوي کابيان ہے کہ جب امام رضاعليہ السلام تکبرکہتے تھے توہم لوگوں کومعلوم ہوتاتھا کہ دروديواراورزمين آسمان سے حضرت کي تکبيرکاجواب سنائي ديتاہے اس ہيبت کوديکھ کريہ حالت ہوئي کہ سب لوگ اورخود لشکروالے زمين پرگرپڑے سب کي حالت بدل گئي لوگوں نے چھريوں سے اپني جوتيوں کے کل تسمے کاٹ دئيے اورجلدي جلدي جوتياں پھينک کرننگے پاؤں ہوگئے شہربھرکے لوگ چينخ چينخ کررونے لگے ايک کہرام بپاہوگياغ”
    اس کي خبرمامون کوبھي ہوگئي اس کے وزيرفضل بن سہل نے اس سے کہاکہ اگرامام رضااسي حالت سے عيدگاہ تک پہنچ جائيں گے تومعلوم نہيں کيافتنہ اورہنگام برپاہوجائے گا سب لوگ ان کي طرف ہوجائيں گے اورہم نہيں جانتے کہ ہم لوگ کيسے بچيں گے وزيرکي اس تقريرپرمتنبہ ہوکرمامون نے اپنے پاس سے ايک شخص کوحضرت کي خدمت ميں بھيج کرکہلابھيجاکہ مجھ سے غلطي ہوگئي جوآپ سے عيدگاہ جانے کے ليے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہي ہے اورميں آپ کي مشقت کوپسندنہيں کرتا بہترہے کہ آپ واپس چلے آئيں اورعيدگاہ جانے کي زحمت نہ فرمائيں پہلے جوشخص نمازپڑھاتاتھا وہ پڑھائے گا يہ سن کرحضرت امام رضاعليہ السلام واپس تشريف لائے اورنمازعيدنہ پڑھاسکے (وسيلة النجات ص 382 ، مطالب السول ص 282 واصول کافي)غ”
    علامہ شبلنجي لکھتے ہيں ،فرجع علي رضاالي بيتہ ورکب المامون فصلي بالناس “ کہ امام رضاعليہ السلام دولت سراکوواپس تشريف لائے اورمامون نے جاکرنماز پڑھائي (نورالابصارص 143) غ”

    حضرت امام رضاکي مدح سرائي اوردعبل خزاعي اورابونواس
    عرب کے مشہورشاعرجناب دعبل خزاعي کانام ابوعلي دعبل ابن علي بن زرين ہے آپ 148 ہجري ميں پيداکر 245 ہجري ميں بمقام شوش وفات پاگئے (رجال طوسي 376) غ”اورابونواس کاپورانام ابوعلي حسن بن ہاني ابن عبدالاول ہوازي بصري بغدادي ہے يہ 136 ہجري ميں پيداہوکر 196 ہجري ميںفوت ہوئے دعبل آل محمدکے مدح خاص تھے اورابونواس ہارون رشيدامين ومامون کانديم تھاغ”
    دعبل خزاعي کے بے شماراشعارمدح آل محمدميں موجودہيں علامہ شبلنجي تحريرفرماتے ہيں کہ جس زمانہ ميں حضرت امام رضاعليہ السلام ولي عہدسطلنت تھے دعبل خزاعي ايک دن دارالسلطنت مروميں آپ سے ملے اورانہوں نے کہاکہ حضورميں نے آپ کي مدح ميں 120 اشعارپرمشتمل ايک قصيدہ لکھاہے ميري تمناہے ميں اسے سب سے پہلے حضورہي کوسناؤں حضرت نے فرمايابہترہے، پڑھو:
    دعبل خزاعي نے اشعارپڑھناشروع کيا قصيدہ کامطلع يہ ہے:
    ذکرت محل الربع من عرفات
    فاجريت دمع العين بالعبرات


    جب دعبل قصيدہ پڑھ چکے توامام عليہ السلام نے ايک سواشرفي کي تھيلي انہيں عطافرمائي دعبل نے شکريہ اداکرنے کے بعد اسے واپس کرتے ہوئے کہاکہ مولا ميں نے يہ قصيدہ قربة الي اللہ کہاہے ميں کوئي عطيہ نہيں چاہتا خدانے مجھے سب کچھ دے رکھاہے البتہ حضوراگرمجھے جسم سے اترے ہوئے کپڑے عنايت فرما ديں ،تووہ ميري عين خواہش کے مطابق ہوگا آپ نے ايک جبہ عطاکرتے ہوئے فرماياکہ اس رقم کوبھي رکھ لو يہ تمہارے کام آئے گي دعبل نے اسے لے لياغ”
    تھوڑے عرصہ کے بعد دعبل مروسے عراق جانے والے قافلے کے ساتھ ہوکر روانہ ہوئے راستہ ميں چوروں نے اورڈاکوں نے حملہ کرکے سب کچھ لوٹ ليا اورچند آدميوں کوگرفتاربھي کرليا جن ميں دعبل بھي تھے ڈاکوؤں نے مالي تقسيم کرتے وقت دعبل کاايک شعرپڑھا دعبل نے پوچھايہ کس کاشعرہے انہوں نے کسي کاہوگا دعبل نے کہاکہ يہ ميراشعرہے اس کے بعدانہوں نے ساراقصيدہ سناديا ان لوگوں نے دعبل کے صدقے ميں سب کوچھوڑديا اورسب کامال واپس کرديا يہاں تک کہ يہ نوبت آئي کہ ان لوگوں نے واقعہ سن کرامام رضاکادياہواجبہ خريدناچاہا،اوراس کي قيمت ايک ہزاردينارلگائي دعبل نے جواب ديا کہ يہ ميں نے بطورتبرک اپنے پاس رکھاہے اسے فروخت نہ کروں گا بالآخرباربار گرفتارہونے کے بعد انہوں نے اسے ايک ہزاراشرفي پرفروخت کرديا غ”
    علامہ شبلنجي بحوالہ ابوصلت ہروي لکھتے ہيں کہ دعبل نے جب امام رضاکے سامنے يہ قصيدہ پڑھاتھاتوآپ رورہے تھے اورآپ نے دوبيتوں کے بارے ميں فرماياتھاکہ يہ اشعارالہامي ہيں (نورالابصارص 138) غ”
    علامہ عبدالرحمن لکھتے ہيں کہ حضرت امام رضاعليہ السلام نے قصيدہ سنتے ہوئے نفس زکيہ کے تذکرہ پرفرماياکہ ائے دعبل اس جگہ ايک شعرکااوراضافہ کرو، تاکہ تمہاراقصيدہ مکمل ہوجائے انہوں نے عرض کي مولافرمائيے ارشادہوا:
    وقبربطوس نالہا من مصيبة
    الحت علي الاحشاء بالزفرات


    دعبل نے گھبراکے پوچھامولا، يہ کس کي قبرہوگي، جس کاحضورنے حوالہ دياہے فرماياائے دعبل يہ قبرميري ہوگي اورميں عنقريب اس عالم ميں غربت ميں جب کہ ميرے اعزاواقرباء بال بچے مدينہ ميں ہيں شہيدکردياجاؤں گا اورميري قبريہيں بنے گي اے دعبل جوميري زيارت کو آئے گاجنت ميں ميرے ہمراہ ہوگا (شواہدالنبوت ص 199) غ”
    دعبل کايہ مشہورقصيدہ مجالس المومنين ص 466 ميں مکمل منقول ہے البتہ اس کامطلع بدلاہواہے علامہ شيخ عباس قمي نے لکھاہے کہ دعبل نے ايک کتاب لکھي تھي جس کانام تھا”طبقات الشعراء“ (سفينة البحار جلد 1 ص 241) غ”
    ابونواس کے متعلق علماء اسلام لکھتے ہيں کہ ايک دن اس کے دوستوں نے اس سے کہا کہ تم اکثرشعارکہتے ہواورپھرمدح بھي کياکرتے ہوليکن افسوس کي بات ہے کہ تم نے حضرت امام رضاعليہ السلام کي مدح ميں اب تک کوئي شعرنہيں کہااس نے جواب دياکہ حضرت کي جلالت قدرہي نے مجھے مدح سرائي سے روکاہے ميري ہمت نہيں پڑتي کہ آپ کي مدح کروں يہ کہہ کراس نے چندشعرپڑھے جس کاترجمہ يہ ہے:
    لوگوں نے مجھ سے کہاکہ عمدہ کلام کے ہررنگ اورمذاق کے اشعارسب لوگوں سے سننے والوں کے سامنے موتي جھڑتے ہيں پھرتم نے حضرت کے فضائل ومناقب ميں کوئي قصيدہ کيوں نہيں کہا؟ توميں نے سب کے جواب ميں کہہ دياکہ بھائيوجن جليل الشان امام کے آبائے کرام کے خادم جبرئيل ايسے فرشتے ہوں ان کي مدح کرنامجھ سے ممکن نہيں ہے غ”
    اس کے بعداس نے چنداشعارآپ کي مدح ميں لکھے جس کاترجمہ يہ ہے:
    يہ حضرات آئمہ طاہرين خداکے پاک وپاکيزہ کئے ہوئے ہيں اوران کالباس بھي طيب وطاہر ہے جہاں بھي ان کاذکرہوتاہے وہاں ان پردرودکانعرہ بلندہوجاتاہے جب حسب ونسب بيان ہوتے وقت کوئي شخص علوي خاندان کانہ نکلے تواس کوابتدائے زمانہ سے کوئي فخرکي بات نہيں ملے گي جب خدانے سب سے زيادہ شريف بھي قرارديااورسب پرفضيلت بھي دي، ميں سچ کہتاہوں کہ آپ حضرات ہي ملااعلي ہيں اورآپ ہي کے پاس قرآن مجيدکاعلم اورسوروں کے مطالب ومفاہيم ہيں“ (وفيات الاعيان جلد 1 ص 322 ،نورالابصارص 138 طبع مصر)غ”

    مذاہب عالم کے علماء سے حضرت امام رضاکے علمي مناظرے
    مامون رشيدکوخودبھي علمي ذوق تھا اس نے ولي عہدي کے مرحلہ کوطے کرنے کے بعدحضرت امام علي رضاعليہ السلام سے کافي استفادہ کياپھراپنے ذوق کے تقاضے پراس نے مذاہب عالم کے علماء کودعوت مناظرہ دي اورہرطرف سے علماء کوطلب کرکے حضرت امام رضاعليہ السلام سے مقابلہ کراياعہدمامون ميں امام عليہ السلام سے جس قدرمناظرے ہوئے ہيں ان کي تفصيل اکثرکتب ميں موجودہے اس سلسلہ ميں احتجاجي طبرسي ،بحار،دمعہ ساکبہ، وغيرہ جيسي کتابيں ديکھي جاسکتي ہيں ،ميں اختصارکے پيش نظرصرف دوچارمناظرے لکھتاہوںغ”

    عالم نصاري سے مناظرہ
    مامون رشيدکے عہدميں نصاري کاايک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتاتھا جس کانام ”جاثليق“ تھااس کي عادت تھي کہ متکلمين اسلام سے کہا کرتاتھا کہ ہم تم دونوں نبوت عيسي اوران کي کتاب پرمتفق ہيں اوراس بات پربھي اتفاق رکھتے ہيں کہ وہ آسمان پرزندہ ہيں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفي صلعم ميں ہے تم ان کي نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہميں انکارہے پھرہم تم ان کي وفات پرمتفق ہوگئے ہيں اب ايسي صورت ميں کونسي دليل تمہارے پاس باقي ہے جوہمارے ليے حجت قرارپائے يہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجاياکرتے تھے غ”
    مامون رشيدکے اشارے پرايک دن وہ حضرت امام رضاعليہ السلام سے بھي ہم کلام ہواموقع مناظرہ ميں اس نے مذکورہ سوال دھراتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ يہ فرمائيں کہ حضرت عيسي کي نبوت اوران کي کتاب دونوں پرآپ کاايمان واعتقادہے يانہيں آپ نے ارشادفرمايا، ميں اس عيسي کي نبوت کايقينا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبي حضرت محمدمصطفي صلعم کي نبوت کي اپنے حوارين کوبشارت دي ہے اوراس کتاب کي تصديق کرتاہوں جس ميں يہ بشارت درج ہے جوعيسائي اس کے معترف نہيں اورجوکتاب اس کي شارح اورمصدق نہيں اس پرميراايمان نہيں ہے يہ جواب سن کرجاثليق خاموش ہوگياغ”
    پھرآپ نے ارشادفرماياکہ ائے جاثليق ہم اس عيسي کوجس نے حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي نبوت کي بشارت دي ،نبي برحق جانتے ہيں مگرتم ان کي تنقيص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثليق نے کہا کہ ہم تويہ نہيں کہتے وہ توہميشہ قائم الليل اورصائم النہاررہاکرتے تھے آپ نے فرماياعيسي توبنابراعتقادنصاري خودمعاذاللہ خداتھے تويہ روزہ اورنمازکس کے ليے کرتے تھے يہ سن کرجاثليق مبہوت ہوگيااورکوئي جواب نہ دے سکاغ”
    البتہ يہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامي کوشفادے نابيناکوبيناکردے اورپاني پرچلے کياوہ اس کاسزاوارنہيں کہ اس کي پرستش کي جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمايااليسع بھي پاني پرچلتے تھے اندھے کوڑي کوشفاديتے تھے اسي طرح حزقيل پيغمبرنے 35 ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کيا تھا قوم اسرائيل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالي نے ايک ساعت ميں سب کومارديا بہت دنوں کے بعدايک نبي استخوان ہائے بوسيدہ پرگزرے توخداوندتعالي نے ان پروحي نازل کي کہ انہيں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان باليہ”استخوان مردہ) اٹھ کھڑے ہووہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسي طرح حضرت ابراہيم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسي کے کوہ طورپرلے جانے اوررسول خداکے احياء اموات فرمانے کاحوالہ دے کرفرماياکہ ان چيزوں پرتورات انجيل اورقرآن مجيدکي شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو يہ سب انبياء بھي خداہونے کے مستحق ہيں يہ سن کروہ چپ ہوگيااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئي چارہ نہ ديکھاغ”

    عالم يہو دسے مناظرہ
    لم يہودميں سے ايک عالم جس کانام”راس الجالوت“ تھا کواپنے علم پربڑا غروراورتکبرونازتھاوہ کسي کوبھي اپني نظرميں نہ لاتاتھاايک دن اس کامناظرہ اورمباحثہ فرزندرسول حضرت امام رضاعليہ السلام سے ہوگياآپ سے گفتگوکے بعداس نے اپنے علم کي حقيقت جاني اورسمجھاکہ ميں خودفريبي ميں مبتلاہوںغ”
    امام عليہ السلام کي خدمت ميں حاضرہونے کے بعد اس نے اپنے خيال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے جن کے تسلي بخش اوراطمينان آفرين جوابات سے بہرہ ورہوا جب وہ سوالات کرچکاتو امام عليہ السلام نے فرماياکہ اے راس الجالوت ! تم تورات کي اس عبارت کاکيامطلب سمجھتے ہوکہ ”آيانورسيناسے روشن ہوا جبل ساعيرسے اورظاہرہواکوہ فاران سے“ اس نے کہاکہ اسے ہم نے پڑھاضرورہے ليکن اس کي تشريح سے واقف نہيں ہوںغ”
    آپ نے فرماياکہ نورسے وحي مرادہے طورسيناسے وہ پہاڑمرادہے جس پرحضرت موسي خداسے کلام کرتے تھے جبل ساعيرسے محل ومقام عيسي عليہ السلام مراد ہے کوہ فاران سے جبل مکہ مرادہے جوشہرسے ايک منزل کے فاصلے پرواقع ہے پھرفرماياتم نے حضرت موسي کي يہ وصيتت ديکھي ہے کہ تمہارے پاس بني اخوان سے ايک نبي آئے گا اس کي بات ماننااوراس کے قول کي تصديق کرنااس نے کہا ہاں ديکھي ہے آپ نے پوچھاکہ بني اخوان سے کون مرادہے اس نے کہا معلوم نہيں، آپ نے فرماياکہ وہ اولاداسماعيل ہيں، کيوں کہ وہ حضرت ابراہيم کے ايک بيٹے ہيں اوربني اسرائيل کے مورث اعلي حضرت اسحاق بن ابراہيم کے بھائي ہيں اورانہيں سے حضرت محمدمصطفي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ہيںغ”
    اس کے بعدجبل فاران والي بشارت کي تشريح فرماکرکہاکہ شعيانبي کاقول توريت ميں مذکورہے کہ ميں نے دوسوارديکھے کہ جن کے پرتوسے دنياروشن ہوگئي، ان ميں ايک گدھے پرسواري کئے تھااورايک اونٹ پر، اے راس الجالوت تم بتلاسکتے ہوکہ اس سے کون مرادہيں؟ اس نے انکارکيا، آپ نے فرماياکہ راکب الحمارسے حضرت عيسي اورراکب الجمل سے مرادحضرت محمدمصطفي صلعم ہيںغ”
    پھرآپ نے فرماياکہ تم حضرت حبقوق نبي کے اس قول سے واقف ہو کہ خدااپنابيان جبل فاران سے لايااورتمام آسمان حمدالہي کي (آوازوں) سے بھرگئے اسکي امت اوراس کے لشکرکے سوارخشکي اورتري ميں جنگ کرينگے ان پرايک کتاب آئے گي اورسب کچھ بيت المقدس کي خرابي کے بعدہوگا اس کے بعدارشادفرماياکہ يہ بتاؤکہ تمہارے پاس حضرت موسي عليہ السلام کي نبوت کي کيادليل ہے اس نے کہاکہ ان سے وہ امورظاہرہوئے ،جوان سے پہلے کے انبياء پرنہيں ہوئے تھے مثلادريائے نيل کاشگافتہ ہونا،عصاکاسانپ بن جانا، ايک پتھرسے بارہ چشمہ جاري ہوجانااوريدبيضاوغيرہ ،
    آپ نے فرماياکہ جوبھي اس قسم کے معجزات کوظاہرکرے اورنبوت کامدعي ہو،اس کي تصديق کرني چاہيے اس نے کہانہيں آپ نے فرماياکيوں؟ کہااس ليے کہ موسي کوجوقربت يامنزلت حق تعالي کے نزديک تھي وہ کسي کونہيں ہوئي لہذاہم پرواجب ہے کہ جب تک کوئي شخص بعينہ وہي معجزات وکرامات نہ دکھلائے ہم اس کي نبوت کااقرارنہ کريں ،ارشادفرماياکہ تم موسي سے پہلے انبياء مرسلين کي نبوت کاکس طرح اقرارکرتے ہو حالانکہ انہوں نے نہ کوئي درياشگافتہ کيا، نہ کسي پتھرسے چشمے نکالے نہ ان کاہاتھ روشن ہوا،ا ورنہ ان کاعصااژدھابنا،راس الجالوت نے کہاکہ جب ايسے اموروعلامات خاص طورسے ان سے ظاہرہوں جن کے اظہارسے عموماتمام خلائق عاجزہو،تووہ اگرچہ بعينہ ايسے معجزات ہوں يانہ ہوں ان کي تصديق ہم پرواجب ہوجائے گي حضرت امام رضاعليہ السلام نے فرماياکہ حضرت عيسي بھي مردوں کوزندہ کرتے تھے کورمادرنوزادکوبينابناتے تھے مبروص کوشفاديتے تھے مٹي کي چڑيابناکرہواميں اڑاتے تھے وہ يہ امورہيں جن سے عام لوگ عاجزہيں پھرتم ان کوپيغمبرکيوں نہيں مانتے؟
    راس الجالوت نے کہاکہ لوگ ايساکہتے ہيں، مگرہم نے ان کوايساکرتے ديکھانہيں ہے فرماياتوکياآيات ومعجزات موسي کوتم نے بچشم خودديکھاہے آخروہ بھي تومعتبرلوگوں کي زباني سناہي ہوگاويساہي اگرعيس کے معجزات ثقہ اورمعتبرلوگوں سے سنو،توتم کوان کي نبوت پرايمان لاناچاہئے اوربالکل اسي طرح حضرت محمدمصطفي کي نبوت ورسالت کااقرارآيات ومعجزات کي روشني ميں کرناچاہيئے سنوان کاعظيم معجزہ قرآن مجيدہے جس کي فصاحت وبلاغت کاجواب قيامت تک نہيں دياجاسکے گا يہ سن کروہ خاموش ہوگياغ”

    عالم مجوسي سے مناظرہ
    مجوسي يعني آتش پرست کاايک مشہورعالم ہربذاکبر حضرت امام رضاعليہ السلام کي خدمت ميں حاضرہوکرعلمي گفتگوکرنے لگاآپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنايت فرمائے اس کے بعداس سے سوال کياکہ تمہارے پاس رزتشت کي نبوت کي کيادليل ہے اس نے کہاکہ انہوں نے ہماري ايسي چيزوں کي طرف رہبري فرمائي ہے جس کي طرف پہلے کسي نے رہنمائي نہيں کي تھي ہمارے اسلاف کہاکرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے ليے وہ ا مورمباح کئے ہيں کہ ان سے پہلے کسي نے نہيں کئے تھے آپ نے فرماياکہ تم کو اس امرميں کياعذرہوسکتاہے کہ کوئي شخص کسي نبي اوررسول کے فضائل وکمالات تم پرروشن کرے اورتم اس کے ماننے ميں پس وپيش کرو، مطلب يہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبرلوگوں سے سن کرزرتشت کي نبوت مان لي اسي طرح معتبرلوگوں سے سن کرانبياء اوررسل کي نبوت کے ماننے ميں تمہيں کياعذرہوسکتاہے؟ يہ سن کروہ خاموش ہوگياغ”

    آپ کي تصانيف
    علماء نے آپ کي تصانيف ميں صحيفة الرضا،صحيفةالرضويہ، طب الرضااور مسندامام رضاکاحوالہ دياہے اوربتاياہے کہ يہ آپ کي تصانيف ہيں صحيفة الرضاکاذکر علامہ مجلسي علامہ طبرسي اورعلامہ زمخشري نے کياہے اس کااردوترجمہ حکيم اکرام الرضالکھنوي نے طبع کراياتھااب جوتقريباناپيدہےغ”
    صحيفة الرضويہ کاترجمہ مولوي شريف حسين صاحب بريلوي نے کياہے طب الرضاکاذکرعلامہ مجلسي شيخ منتخب الدين نے کياہے اس کي شرح فضل اللہ بن علي الراوندي نے لکھي ہے اسي کورسالہ ذھبيہ بھي کہتے ہيں اوراس کاترجمہ مولاناحکيم مقبول احمدصاحب قبلہ مرحوم نے بھي کياہے اس کاتذکرہ شمس العلماء شبلي نعماني نے المامون ص 92 ميں کياہے مسندامام رضاکاذکرعلامہ چليپي نے کتاب کشف الظنون ميں کياہے جس کوعلامہ عبداللہ امرت سري نے کتاب ارجح المطالب کے ص 454 پرنقل کياہے ناچيزمؤلف کے پاس يہ کتاب مصرکي مطبوعہ موجودہے يہ کتاب 1321 ہجري ميں چھپي ہے اوراس کے مرتب علامہ شيخ عبدالواسع مصري اورمحشي علامہ محمدابن احمدہيںغ”
    حضرت امام رضاعليہ السلام نے ماء اللحم بنانے اورموسميات کے متعلق جوافادہ فرماياہے اس کاذکرکتابوں ميں موجودہے تفصيل کے ليے ملاحظہ ہو(دمعہ ساکبہ وغيرہ)غ”

    مامون رشيدعباسي اورحضرت امام رضاعليہ السلام کي شہادت
    يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ غيرمعصوم ارباب اقتدارہوس حکمراني ميں کسي قسم کاصرفہ نہيں کرتے اگرحصول حکومت ياتحفظ حکمراني ميں باپ بيٹے، ماں بيٹي يامقدس سے مقدس ترين ہستيوں کوبھينٹ چڑھادے ،تووہ اس کي پرواہ نہيں کياکرتے اسي بناء پرعرب ميں مثل کے طورپرکہاجاتاہے کہ الملک عقيم، علامہ وحيدالزمان حيدرآبادي لکھتے ہيں کہ الملک عقيم بادشاہت بانجھ ہے يعني بادشاہت حاصل کرنے کے ليے باپ بيٹے کي پرواہ نہيں کرتابيٹاباپ کي پرواہ نہيں کرتا بلکہ ايسابھي ہوجاتاہے کہ بيٹاباپ کومارکرخودبادشاہ بن جاتاہے (انواراللغة پارہ 8 ص 173) غ”
    اب اس ہوس حکمراني ميں کسي مذہب اورعقيدہ کاسوال نہيں ہروہ شخص جواقتدارکابھوکاہوگاوہ اس قسم کي حرکتيں کرے گاغ”
    مثال کے ليے اسلامي تواريخ کي روشني ميں حضوررسول کريم کي وفات کے فورابعدکے واقعات کوديکھيے جناب سيدہ کے مصائب وآلام اوروجہ شہادت پرغور کيجيے امام حسن کے ساتھ برتاؤپرغورفرمائيے ،واقعہ کربلااورشہادت کے واقعات کوملاحظہ کيجيے ان امورسے يہ بات واضح ہوجائے گي کہ حکمراني کے ليے کياکيا مظالم کيے جاسکتے ہيں اورکيسي کيسي ہستيوں کي جانيں لي جاسکتي ہيں اورکياکچھ کياجاسکتاہے تواريخ ميں موجودہے کہ مامون رشيدعباسي کي دادي نے اپنے بيٹے خليفہ ہادي کو 26 سال کي عمرميں زہردلوکرمارديامامون رشيدکے باپ ہارون رشيدنے اپنے وزيروں کے خاندان کوتباہ وبربادکرديا(المامون ص 20) غ”
    مروان کي بيوي نے اپنے خاوندکوبسترخواب پردوتکيوں سے گلاگھٹواکرمرواديا وليدبن عبدالملک نے فرزندرسول امام زين العابدين کوزہرسے شہيدکياہشام بن عبدالملک نے امام محمدباقرکوزہرسے شہيدکيا امام جعفرصادق کومنصوردوانقي نے زہرسے شہيدکيا امام موسي کاظم کوہارون رشيدنے زہرسے شہيدکيا امام علي رضاعليہ السلام کومامون عباسي نے زہرديے کرشہيدکياامام محمدتقي کومعتصم باللہ نے ام الفضل بنت مامون کے ذريعہ سے زہردلوايا امام علي نقي کومعتمدعباسي نے زہرسے شہيدکيا اسي طرح امام حسن عسکري کوبھي زہرسے شہيدکياگيا غرضيکہ حکومت کے سلسلے ميں يہ سب کچھ ہوتارہتاہے اورنگ زيب کوديکھيے اس نے اپنے بھائي کوقتل کرادااوراپنے باپ کوسلطنت سے محروم کرکے قيدکردياتھا اسي نے شہيدثالث حضرت نوراللہ شوشتري (آگرہ)کي زبان گدي سے کھچوائي تھي بہرحال جس طرح سب کے ساتھ ہوتارہا حضرت امام رضاعليہ السلام کے ساتھ بھي ہواغ”

    تاريخ شہادت
    حضرت امام رضاعليہ السلام کي شہادت 23/ ذي قعدہ 203 ہجري مطابق 818 ء يوم جمعہ کوبمقام طوس واقع ہوئي ہے (جلاء العيون ص 280 ،انوراالنعمانيہ ص 127 ، جنات الخلود ص 31) غ”
    آپ کے پاس اس وقت عزاء واقربا اولادوغيرہ ميں سے کوئي نہ تھا ايک توآپ خودمدينہ سے غريب الوطن ہوکرآئے دوسرے يہ کہ دارالسلطنت مروميں بھي آپ نے وفات پائي بلکہ آپ سفر کي حالت ميں بعالم غربت فوت ہوئے اسي ليے آپ کوغريب ا لغرباء کہتے ہيںغ”
    واقعہ شہادت کے متعلق مورخين نے لکھتے ہيں کہ حضرت امام رضاعليہ السلام نے فرماياتھا کہ ”فمايقتلني واللہ غيرہ“ خداکي قسم مجھے مامون کے سواء کوئي اورقتل نہيں کرے گا اورميں صبرکرنے پرمجبورہوں (دمعہ ساکبہ جلد 3 ص 71) غ”علامہ شبلنجي لکھتے ہيں کہ ہرثمہ بن اعين سے آپ نے اپني وفات کي تفصيل بتلائي تھي اوريہ بھي بتاياتھا کہ انگوراورانارميں مجھے زہردياجائے گا(نورالابصارص 144) غ”
    علامہ معاصرلکھتے ہيں کہ ايک روزمامون نے حضرت امام رضاعليہ السلام کواپنے گلے سے لگايااورپاس بٹھاکران کي خدمت ميں بہترين انگوروں کاايک طبق رکھا اوراس ميں سے ايک خوشااٹھاکرآپ کي خدمت ميں پيش کرتے ہوئے کہاابن رسول اللہ يہ انگورنہايت ہي عمدہ ہيں تناول فرمائيے آپ نے يہ کہتے ہوئے انکارفرماياکہ جنت کے انگوراس سے بہترہيں اس نے شديد اصرارکيااورآپ نے اس ميں سے تين دانے کھاليے يہ انگورکے دانے زہرآلودتھے انگورکھانے کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے ،مامون نے پوچھاآپ کہاں جارہے ہيں آپ نے ارشاد فرمايا جہاں تونے بھيجاہے وہاں جارہاہوں قيام گاہ پرپہنچنے کے بعد آپ تين دن تک تڑپتے رہے بالآخرانتقال فرماگئے (تاريخ آئمہ ص 476) غ”
    انتقال کے بعدحضرت امام محمدتقي عليہ السلام باعجازتشريف لائے اورنمازجنازہ پڑھائي اورآپ واپس چلے گئے بادشاہ نے بڑي کوشش کي کہ آپ سے ملے مگرنہ مل سکا(مطالب السول ص 288) اس کے بعدآپ کوبمقام طوس محلہ سنابادميں دفن کردياگيا جوآج کل مشہدمقدس کے نام سے مشہورہے اوراطراف عالم کے عقيدت مندوں کے حوائج کامرکزہےغ”

    شہادت امام رضاکے موقع پرامام محمدتقي کاخراسان پہنچنا
    ابومخنف کابيان ہے کہ جب حضرت امام رضاعليہ السلام کو خراسان ميں زہرديديااورآپ بسترعلالت پرکروٹيں لينے لگے ،توخداوندعالم نے امام محمدتقي کووہاں بھيجنے کابندوبست کياچنانچہ امام محمدتقي جب کہ مسجدمدينہ ميں مشغول عبادت تھے ايک ہاتف غيبي نے آوازدي کہ ”اگرمي خواہي پدرخودرازندہ دريابي قدم درراہ نہ“ اگرآپ اپنے والدبزرگوارسے ان کي زندگي ميں ملناچاہتے ہيں توفوراخراسان کے ليے روانہ ہوجائيں يہ آوازسنناتھا کہ آپ مسجدسے برآمدہوکر داخل خانہ ہوئے اورآپ نے اپنے اعزاواقرباکوشہادت پدرسے آگاہ کيا ،گھرميں کہرام برپاہوگيااس کے بعدآپ وہاں سے روانہ ہوکرايک ساعت ميں خراسان پہنچے وہاں پہنچ کرديکھاکہ دربان نے دروازہ بندکررکھاہے آپ نے فرماياکہ دروازہ کھول دو ميں اپنے پدربزرگوارکي خدمت ميں جاناچاہتاہوں آپ کي آوازسنتے ہي امام عليہ السلام خوداپنے بسترسے اٹھے اوردروزاہ کھول کرامام محمدتقي کواپنے گلے سے لگاليا اوربے پناہ گريہ کيا امام محمدتقي پدربزرگوارکي بے بسي ،بے کسي اورغربت پرآنسوبہانے لگے پھرامام عليہ السلام تبرکات امامت فرزندکے سپردکرکے راہي ملک بقاہوگئے”اناللہ وانااليہ راجعون“غ” (کنزالانساب ص 95) غ”
    علامہ شيخ عباس قمي بحوالہ اعلام الوري تحريرفرماتے ہيں کہ حضرت امام محمدتقي عليہ السلام کوجونہي خبرشہادت ملي ،خراسان تشريف لے گئے اوراپنے والدبزرگوارکو دفن کرکے ايک ساعت ميں واپس آئے اوريہاں پہنچ کرلوگوں کوحکم دياکہ امام عليہ السلام کاماتم کريں (منتہي الآمال جلد 2 ص 312) غ”
يعمل...
X