اللھم صلي علي محمد وال محمد
ميثم خالصتاً عربي تہذيب کا لفظ ہے ليکن غالب خيال يہ ہے کہ ميثم کا وطن فارس تھا - مورخين کي بڑي تعداد کا خيال ہے کہ ان کا وطن نہروان تھا- اس زمانے ميں نہروان ايک بڑا علاقہ تھا جو کہ بغداد اور واسط کے مغربي کنارے پر واقعہ تھا- معجم البلدان ميں اسي ايک نہروان کا ہي ذکر ہے- نہروان اب موجودہ عراق ميں ہے تاہم درياۓ دجلہ کے مشرق ميں واقعہ عراق کے کچھ علاقے ايراني حکومت کي عملداري ميں تھے- ميثم کے عجمي ہونے کے ثبوت ميں جناب امير المومنين (ع) کا وہ بيان بھي ہے ، جب جناب امير (ع) نے ميثم کو قبيلہ بني اسد کي ايک خاتون سے خريدا تو ميثم سے ان کا نام دريافت فرمايا- ميثم نے نام بتايا تو جناب امير نے ارشاد فرماياتمہارے والد نے عجم ميں تمہارا نام ميثم رکھا تھا ميثم کے قبيلہ بني اسد کي خاتون کي غلامي ميں آنے، اسلام لانے اور کوفہ ميں سکونت پذير ہونے کے حالات و اوقات کا تعين کرنا بہت دشوار ہے- البتہ خيال يہ ہے کے اس خاتون سے جناب امير کے ان کو آزاد کروانے سے پہلے ہي وہ مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے- جناب امير نے ان کو آزاد کرواتے وقت جب فرمايا کہ تمہارے والد نے عجم ميں تمہارا نام ميثم رکھا تو ميثم نے جواباً کہا، صدق الله و رسولہ و امير المومنين امير المومنين (ع) سے ميثم کو وہي نسبت تھي جو حضرت سلمان محمدي کو رسول خدا (ص) سے تھي- آپ کي جناب امير سے بے پناہ محبّت و مودت کي وجھہ سے ہي ابن زياد لعين نے آپ کو شہيد کيا- ميثم نے جناب امير اور امام حسن عليھم السلام سے اکتساب علم کيا- جناب امير اپنے بعد ہونے والے حوادث زمانہ اور مظالم سے ميثم اور چند مخصوص اصحاب کو آگاہ فرماتے- مدينہ ميں ميثم کھجوريں فروخت کر کے روزي کے اسباب پيدا کرتے اور اکثر جناب امير ميثم کي دوکان پے تشريف فرما ہوا کرتے- عقلي دلائل سے يہ خيال پيدا ہوتا ہے کہ ميثم جناب امير کي خلافت کے زمانے ميں ہي مدينہ سے کوفہ منتقل ہوے - جناب امير کي شہادت کے چند ماہ بعد امام حسن اور امام حسين عليھم السلام واپس مدينہ تشريف لے آے مگر امام حسن نے ميثم کو حکم ديا کہ وہ کوفہ ميں ہي رہيں کيونکہ کوفي ميثم کي باتيں توجہ سے سنتے- ميثم کو جناب امير نے ان کي شہادت کے اسباب و واقعات اور مقام و مکان تک سے آگاہ کر ديا تھا اور يہاں تک بتا ديا تھا کہ ان کو کس درخت پے سولي دي جائے گي - لہٰذا جب بھي ميثم ، عمرو بن حريث کے مکان سے متصل اس کھجور کے درخت کے پاس سے گزرتے تو اس پر ہاتھ سے ٹيک لگا کر کھڑے ہو جاتے اور اس سے کلام کرتے اے درخت، تو اس لئے غذا پا رہا ہے کہ ميں تجھ پر سولي ديا جاؤں اور ميں اس لئے غذا پا رہا ہوں کے تجھ پر سولي پاؤں (کچھ روايات ميں ميثم کا اس درخت کو روزانہ پاني دينے کا بھي لکھا ہے) آپ عمرو بن حريث سے بھي فرماتے اے عمرو! جب ميں تمہارے پڑوس ميں آؤں گا تومجھ سے اچھے پڑوسي کا سلوک کرنا ابن زياد ملعون کے کوفہ کي گورنري سنبھالتے ہي شيعان علي کي پکڑ دھکڑ اور ان پے مظالم کا کام مزيد تيز ہو گيا- اسي اثنا ميں ميثم حج کے لئے مکہ چلے گئے- پيچھے سے ابن زياد نے ان کے محلے کے سردار کو بلايا اور کہا کہ جب ميثم واپس آئيں تو ان کو گرفتار کروا اور اگر تو نے ايسا نہ کيا تو تيري گردن مار دي جائے گي کچھ دن بعد وہ سردار ميثم کے انتظار ميں قادسيہ چلا گيا- ميثم حج سے واپس آے اور ابن زياد کے پاس چلے گئے- اس ملعون نے کہا تم ہي ميثم ہو ؟ جناب ميثم نے فرمايا ہاں ميں ہي ميثم ہوں- ابن زياد لعين نے کہا تم ابو تراب پے تبرا کرو- جناب ميثم نے فرمايا- اگر ميں نہ کروں تو تو کيا کرے گا ؟ ابن زياد نے کہا ، خدا کي قسم ميں تجھے ضرور قتل کروں گا- ميثم نے فرمايا، ميرے آقا و مولا نے مجھے تيرے بارے ميں پہلے ہي خبر دے دي تھي کہ تو مجھے قتل کرے گا پھر ميرے ہاتھ، پاؤں اور زبان قطح کرے گا اور عمرو بن حريث کے دروازے پے سولي بھي دے گا- اور جب مجھے سولي پے لٹکے چوتھا دن ہوگا تو ميرے نتھنوں سے تازہ خون بھي جاري ہو گا- پھر ميثم نے ابن زياد پے تبرا کيا- ابن زياد ملعون کے حکم پے ميثم کو بالکل اسي طرح ہي شہيد کيا گيا جيسے جناب امير نے پيشنگوئي فرمائي تھي- آپ کو جب سولي دي جا رہي تھي تو آپ نے لوگوں سے فرمايا- تم نے مجھ سے جو پوچھنا ہو ابھي پوچھ لو خدا کي قسم ميں قيامت تک کي ہونے والي تمام باتوں سے آگاہ ہوں- جو جو فتنہ و فساد ہوں گے مجھے سب کي خبر ہے- لوگوں نے آپ سے سوال کرنے شروع کر ديے ابھي آپ ان کو ايک بات بھي بيان نہ فرما سکے تھے کہ ابن زياد ملعون کا ايک آدمي آيا اور اس نے ميثم کے منہ ميں لگام لگا دي- آپ ہي وہ بزرگ ہيں جن کے منہ ميں اس وقت لگام لگائي گئي جب آپ سولي پر تھے اس کي وجھہ سے آپ کي زبان رک گئي اور آپ کوئي بات نہ کر سکے- آپ کي شہادت 22 ذالحجہ سن 60 ہجري کو ہوئي- اس بات پر بےشمار شواہد ہيں کے کوفہ ميں جہاں آپ کا مزار ہے اسي مقام پے آپ کي شہادت ہوئي-
إعـــــــلان
تقليص
لا يوجد إعلان حتى الآن.
واقعہ شہادت حضرت ميثم تمار رضي اللہ عنہ
تقليص