بسم اللہ الرحمن الرحيم
اللھم صلي علي محمد وال محمد
اللھم صلي علي محمد وال محمد
ہم سورہٴ مائدہ کي 55 ويں آيت ميں پڑھتے ہيں۔
” إِنَّمَا وَلِيُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ“
”تمہارا ولي صرف خدا، اس کا رسول اور وہ صاحب ايمان ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت رکوع ميں زکوٰةديتے ہيں“۔
شيعہ اور سني دونوںسے متواتر روايت نقل ہوئي ہے کہ يہ آيت امير الموٴمنين علي عليہ السلام کي شان ميں نازل ہوئي ہے اور يہ آيت پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد آپ کي رہبري اور ولايت کي دليل ہے۔
يہ آيت اس وقت نازل ہوئي جب مولائے کائنات علي بن ابي طالب عليہ السلام مسجد ميں نمازپڑھ رہے تھے ايک سائل نے آکر سوال کيا تو کسي نے اسے کچھ نہيں ديا۔ حضرت علي عليہ السلام اس وقت رکوع ميں تھے اور اسي رکوع کي حالت ميں آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کي انگوٹھي کي طرف اشارہ کيا اور سائل نے آکر آپ کي انگلي سے وہ انگو ٹھي اتارلي۔ اس طرح آپ نے نماز ميں صدقہ کے طور پر اپني انگوٹھي فقير کو دے دي، اس کے بعد آپ کي تعريف و تمجيد ميں يہ آيت نازل ہوئي۔ 1
اب آپ ايک يونيورسٹي کے طالب علم کاايک عالم دين سے مناظرہ ملاحظہ فرمائيں:
طالب علم: ”ميں نے سنا ہے کہ جو انگوٹھي علي عليہ السلام نے فقير کو دي تھي وہ بہت ہي قيمتي تھي اور بعض کتب جيسے تفسير برہان(ج1،ص485)ميں ملتا ہے کہ اس انگوٹھي کا نگينہ 5 مثقال سرخ ياقوت تھا جس کي قيمت شام کے خزانہ کے برابر تھي، حضرت علي عليہ السلام يہ انگوٹھي کہاں سے لائے تھے ؟کيا علي عليہ السلام حُسن وتزئين پسند تھے ؟کيا اتني قيمتي انگوٹھي پہننا فضول خرچي نہيں ہے؟تصوير کے دوسرے رخ سے امام علي عليہ السلام کي طرف يہ نسبت دينا بالکل غلط ہے کيونکہ وہ لباس، کھانے اور دوسري دنيوي اشياء ميں حد درجہ زہد سے کام ليتے تھے جيسا کہ ايک جگہ آپ فرماتے ہيں:
”فوالله ما کنزت من دنيا کم تبراً ولاادخرت من غنائمھا وفراً ولا اعددت لبالي ثوبي طمر ا ولا حزت من ارضھا شبرا ولا اخذت منہ الا کقوت اتان دبرةٍ“۔
”خدا کي قسم !ميں تمہاري دنيا سے سونا چاندي جمع نہيں کرتا اور غنائم اور ثروتوں کا ذخيرہ نہيں کرتا اور اس پرانے لباس کي جگہ کوئي نيا لباس نہيں بنواتا اور اس کي زمين سے ايک بالشت بھي ميں نے اپنے قبضہ ميں نہيں کيا اور اس دنيا سے اپني تھوڑي سي خوراک سے زيادہ نہيں ليا ہے۔ 2
عالم دين: ”يہ گراں قيمت انگوٹھي کے بارے ميں فالتوبات ہے جو بالکل بے بيناد ہے اور متعدد روايتوں کے ذريعہ اس آيت کے شان نزول کے بارے ميں ہرگز اس طرح کي انگوٹھي کا ذکر نہيں ہوا ہے اور صرف تفسير برہان ميں ايک روايت نقل ہوئي ہے کہ اس انگوٹھي کي قيمت ملک شام کے خزانہ کے برابر تھي يہ روايت ”مرسلہ“ہے اور ممکن ہے کہ اس کے راويوں نے مولائے کائنات کي اہميت کو کم کرنے کي خاطر اس روايت کو گڑھا ہو“۔
طالب علم: ”بہر حال انگوٹھي قيمتي تھي يہ بات تويقيني ہے ورنہ پھر فقير کا پيٹ کيسے بھرتا؟“
عالم دين: ”شاعر کے قول کے مطابق اگر ہم فرض کر ليں کہ يہ انگوٹھي بہت قيمتي تھي جيسا کہ شاعر کہتا ہے:
بر واي گداي مسکين درخانہ علي زن
کہ نگين پادشاہي دھد از کرم، گدا را
تاريخ ميں ملتا ہے کہ يہ انگوٹھي ”مروان بن طوق “نامي ايک مشرک کي تھي امام عليہ السلام جنگ کے دوران جب اس پر کامياب ہوگئے تو اسے قتل کر کے غنيمت کے طور پر اس کے ہاتھ سے يہ انگوٹھي اتارلي اور اسے آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلمکي خدمت ميں لے کر آئے تو آپ نے فرمايا: ”اس انگوٹھي کو مال غنيمت سمجھ کر تم اپنے پاس رکھو“، ساتھ ساتھ يہ کہ پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم يہ جانتے تھے کہ اگر علي عليہ السلام اس انگوٹھي کو لے بھي ليں گے تو کسي امين کي طرح اس کي حفاظت کريں گے اور مناسب مو قع پر اسے کسي محتاج و فقير کو دے ديں گے۔
اس طرح يہ انگوٹھي آپ نے خريدي نہيں تھي اور ابھي يہ انگوٹھي حضرت علي عليہ السلام کے ہاتھوں ميں چند دن ہي رہي ہوگي کہ صرف ايک محتاج کي آواز سن کر آپ نے اسے دے ديا۔ 3 طالب علم: ” لوگ نقل کرتے ہيں کہ حضرت علي عليہ السلام نماز کے وقت خشوع و خضوع ميں اس حدتک غرق ہوجاتے تھے کہ امام حسن عليہ السلام کے حکم کے مطابق جنگ صفين ميں ان کے پير ميں لگے تير کو نماز کي حالت ميں نکال ليا گيا تھا ليکن انھيں احساس تک نہ ہوا اب اگر اس طرح ہے تو حالت رکوع ميں انھوں نے اس فقير کي آوازکيسے سن لي اور انگوٹھي اسے دےدي؟“
عالم دين: ” جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہيں وہ يقينا غفلت ميں ہيں کيونکہ محتاج وفقير کي آواز سننا اپني ذات کي طرف متوجہ کرنا نہيں ہے بلکہ يہ تو جہ خدا کي طرف عين توجہ ہے۔علي عليہ السلام نماز ميں اپنے سے بيگانہ تھے نہ کہ خدا سے، واضح طور پر نماز کي حالت ميں زکوٰة دينا عبادت کے ضمن ميں عبادت ہے اور جو روح عبادت کے لئے غير مناسب ہے وہ مادي اور دنياوي چيزيں ہيں ليکن جو توجہ خدا وند متعال کي راہ ميں ہو وہ يقينا روح عبادت کے موافق ہے اور تقويت کرنے والي ہے۔
البتہ يہ جاننا چاہئے کہ خدا کي توجہ ميں غرق ہونے کا يہ مطلب نہيں کہ اس کا احساس بے اختياري طور پر اس کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے بلکہ اس سے مراديہ ہے کہ جو چيز خداکي مرضي کے مطابق نہيں ہے اس سے اپني توجہ ہٹالے