إعـــــــلان

تقليص
لا يوجد إعلان حتى الآن.

عقيدہ رجعت

تقليص
X
 
  • تصفية - فلترة
  • الوقت
  • عرض
إلغاء تحديد الكل
مشاركات جديدة

  • عقيدہ رجعت

    بسم اللہ الرحمن الرحيم

    اللھم صلي علي محمد وآل محمد


    رجعت ان مسائل ميں سے ہے جن کے صرف شيعہ قائل ہيں
    بعض صوفي عقائد ميں البتہ ايسي چيزيں ہيں جن کا تعلق مغيبات سے ہے ۔ جو ان باتوں کو نہ مانے وہ کافر نہيں ہوتا کيونکہ ايمان نہ ان امور کے ماننے پر موقوف ہے نہ ان پر اعتقاد سے ايمان کي تکميل ہوتي ہے ۔
    زيادہ واضح الفاظ ميں يوں کہہ سکتے ہيں کہ ان کے ماننے يا نہ ماننے سے نہ کوئي نفع ہوتا ہے نہ نقصان ۔ يہ صرف روايات ہيں جن کو شيعہ ائمہ اطہار ع سے روايت کرتے ہيں کہ
    "اللہ سبحانہ ،بعض مومنين اور بعض مجرمين مفسدين کو زندہ کرے گا تاکہ مومنين آخرت سے پہلے دنيا ہي ميں اپنے دشمنوں سے انتقام ليں ۔"
    اگر يہ روايتيں صحيح ہيں ۔ اورشيعوں کے نزديک تو يہ صحيح اور متواتر ہيں ۔جب بھي يہ اہل سنت کو پابند نہيں بناتيں ۔ہم يہ نہيں کہتے کہ ان پر اعتقاد رکھنا اس ليے واجب ہے کہ اہل بيت ع نے انھيں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت کيا ہے ۔ہر کز نہيں ۔کيونکہ ہم نے بحث ميں انصاف اور بے تعصبي کا عہد کيا ہوا ہے ۔
    اس ليے ہم اہل سنت کو انھي روايات کا پابند سمجھتے ہيں جو ان کي اپني حديث کي معتبر کتابوں ميں موجود ہيں ۔ چونکہ رجعت کي احاديث ان کي اپني کتابوں ميں نہيں آئي ہيں اس ليے وہ ان کو قبول نہ کرنے ميں آزاد ہيں اور يہ بھي جب ہے ، جب کوئي شيعہ ان روايات کو ان پر مسلط کرنے کي کوشش کرے ۔
    ليکن شيعہ کسي کو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہيں کرتے اورنہ وہ يہ کہتے ہيں کہ جو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہيں کرتے اور نہ وہ يہ کہتے ہيں کہ رجعت کا قائل نہيں وہ کافر ہے۔ اس ليے کوئي وجہ نہيں کہ شيعہ ، جو
    رجعت کے قائل ہيں ان کو اس قدر برابھلا کہا جائے اور ان کے خلاف اس قدر شوروغوغا برپا کيا جائے !
    شيعہ مسئلہ رجعت کا ان روايات سے استدلال کرتے ہيں جو ان کے نزديک ثابت ہيں اور جن کي تائيد بعض آيات سے بھي ہوتي ہے ،جيسے "
    " وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ "
    اور جس دن ہم ہر امت ميں سے ايک ايک گروہ ان لوگوں کا جمع کريں گے جو ہماري آيتوں کو جھٹلايا کرتے تھے اور ان کي صف بندي کي جائے گي۔(سورہ نمل ۔آيت 83)
    تفسير قمي ميں ہے کہ "
    امام جعفر صادق ع نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ لوگ اس آيت کے بارے ميں کيا کہتے ہيں کہ " وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً "؟ حمّاد کہتے ہيں کہ ميں نے کہا : لوگ کہتے ہيں کہ اس کا تعلق روزقيامت سے ہے ۔ امام نے کہا : يہ بات نہيں ،يہ آيت رجعت کے بارے ميں ہے ، قيامت ميں کيا اللہ تعالي ہر امت ميں سے صرف ايک ايک گروہ کو اکٹھا کرے گا اور باقي کو چھوڑ دے گا ؟
    قيامت کے بارے ميں دوسري آيت ہے :
    " وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً "
    اور ہم ان سب کو جمع کريں گے اور ان ميں سے کسي کو بھي نہ چھوڑيں گے ۔
    (سورہ کہف ۔آيت 47)
    شيخ محمد رضا مظفر کي کتاب عقائد الاماميہ ميں ہے : اہل بيت عليھم السلام سے جو روايات آئي ہيں ان کي بنا پر شيعوں کا عقيدہ يہ ہے کہ اللہ تعالي مردوں ميں سے کچھ کو اسي دنيا ميں زندہ کرے گا، ان کي شکليں وہي ہوں گي جو ان کي زندگي ميں تھيں ۔پھر ان ميں سے ايک گروہ کو عزت دے گا اور ايک گروہ
    کو ذليل کرے گا ۔ اس وقت حق پرست ،باطل پرستوں سے ، اور مظلوم ، ظالموں سے بدلہ ليں گے ۔ بدلہ لينے کا يہ واقعہ قائم آل محمد کے ظہور بعد ہوگا ۔
    رجعت صرف ان مومنين کي ہوگي جن کے ايمان کا درجہ بہت بلند تھا اور مفسدين ميں سے صرف ان کي جو حد درجہ بہت بلند تھا اور مفسدين ميں سے صرف ان کي جو حد درجہ فسادي تھے اس کے بعد يہ لوگ پھر مرجائيں گے اور روزقيامت دوبارہ محشور ہوں گے اور ان کے استحقاق کے مطابق ثواب ثواب وعذاب ديا جائے گا ۔

    اللہ تعالي نے قرآن کريم ميں ان دوبارہ زندگي پانے والوں اور لوٹ کر آنے والوں کي ايک تمنا کا بھي ذکر کيا ہے ۔جب دوسري دفعہ بھي ان کي اصطلاح نہيں ہوگي اور خدا کے غضب کے سوا انھيں کچھ نہيں ملے گا ، تويہ تيسري دفعہ دنيا ميں آنے کي تمنا کريں گے ۔:
    " قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ"
    اور وہ کہيں گے اے ہمارے پروردگار ! تونے ہميں دوفعہ موت اور دودفعہ زندگي دي سو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہيں ، تو کيا کوئي صورت ہے نکلنے کي ؟(سورہ مومن ۔آيت 116)
    اگر اہل سنت والجماعت رجعت پر يقين نہيں رکھتے ، تو انھيں اس کا پورا حق ہے ،ليکن انھيں يہ حق نہيں ہے کہ جو اس کے قائل ہيں اور جن کے نزديک يہ نصوص سے ثابت ہے ان کو برا بھلا کہيں اس ليے کہ کسي شخص کا کسي بات کو نہ جاننا اس کي دليل نہيں کہ جو شخص جانتا ہے ہو غلطي پر ہے اسي طرح کسي کے کسي چيز کو نہ ماننے يا نہ جاننے کا يہ مطلب نہيں کہ اس چيز کا وجود ہي نہين مسلمانوں کے کتنے ہي ناقابل ترديد دلائل ہيں جنھيں اہل کتاب يعني يہود ونصاري تسليم نہيں کرتے ۔

    رجعت کا ثبوت قرآن اور سنت نبوي ميں ملتا ہے اور ايسا کرنا اللہ تعالي کے ليے ناممکن اور محال بھي نہيں ہے ۔ خود قرآن شريف ميں رجعت کي کئي مثاليں ملتي ہيں ۔ مثلا قرآن ميں ہے :
    " أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ "
    کيا تم نے اس شخص کے حل پر غور کياجسے ايک گاؤں ميں جو اپني چھتوں کے بل گرچکا اتفاق گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اللہ اس بستي کے باشندوں کومرنے کے بعد کيسے زندہ کرے گا ، تو اللہ نے اس کي روح قبض کرلي اور اس کو سوسال تک مردہ رکھا ، پھر زندہ کرديا ۔(سورہ بقرہ ۔ آيت 259)
    يا ايک اور آيت ميں ہے :
    " أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ "
    کيا تمھيں ان لوگوں کي خبر ہے جو شمار ميں ہزاروں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے ، تو اللہ نے ان سے کہا کہ مرجاؤ ، پھر انھيں زندہ کرديا ۔(سورہ بقرہ ۔آيت 243)
    اللہ تعالي نے بني اسرائيل کے ايک گروہ کو پہلے موت دے دي اور پھر انھيں زندہ کرديا :
    " وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ () ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ()"
    اور جب تم نے کہاتھا کہ اے موسي ! ہم تم پر ايمان نہيں لائيں گے جب تک خدا مامنے نہيں ديکھ ليں گے ۔ اس پر تمھاري ديکھتے ديکھتے بجلي کي کڑک نے آکر تمھيں دبوچ ليا ۔ پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تمھيں ازسر نوزندہ کرديا تاکہ تم احسان مانو۔(سورہ بقرہ ۔آيت 56)
    اصحاب کہف تين سوسال سے زيادہ غار ميں مردہ پڑے رہے :
    " ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَداً"
    پھر ہم نے انھيں زندہ کرکے اٹھا يا تاکہ معلوم کريں کہ ان دونوں گروہوں ميں سے کونسا گروہ اس حالت ميں رہنے کي مدت سے زيادہ واقف ہے ۔
    (سورہ کہف ۔آيت 12)
    کتاب اللہ کہتي ہے کہ سابقہ امتوں ميں رجعت کے واقعات ہوتے رہے ہيں ، تو امت محمديہ ميں بھي ايسے کسي واقعہ کا وقوع پذير ہونا ممکن نہيں ہے ، خصوصا جبکہ ائمہ اہل بيت ع اس کي خبر دے رہے ہوں جو سچے ہيں اور باخبر ہيں ۔ بعض بے جا دخل اندازي کرنے والے کہتے ہيں کہ رجعت کو تسليم کرنا تناسخ (آواگون)کو تسليم کرنے کے مترادف ہے جو کہ کفار کا عقيدہ ہے ۔ظاہر ہے کہ يہ بات بالکل غلط ہے اور اس کامقصد محض شيعوں پر الزام تراشي اور انھيں بدنام کرنا ہے۔
    تناسخ کے ماننے والے يہ نہيں کہتے کہ انسان اسي جسم ، اسي روح اور اسي شکل کے ساتھ دنيا ميں واپس آتاہے ۔ بلکہ وہ يہ کہتے ہيں کہ ايک آدمي جو مرجاتا ہے ، اس کي روح ايک دوسرے انسان کے جسم ميں جو دوبارہ پيدا ہوتا ہے داخل ہوجاتي ہے بلکہ اس کي روح کسي جانور کے جسم مين بھي داخل ہوسکتي ہے۔جيسا کہ ظاہر ہے يہ عقيدہ اس اسلامي عقيدے سے بالکل مختلف ہے جس کے مطابق اللہ تعالي مردوں کو اسي جسم اور اسي روح کے ساتھ اٹھاتا ہے ۔رجعت کا تناسخ
    سے قطعا کوئي تعلق نہيں ۔ يہ ان جاہلوں کا کہنا ہے کہ جو شيعہ اور شيوعيّہ ميں بھي تميز نہيں کرسکتے ۔

  • #2
    بسم الله الرحمن الرحيم
    والحمد لله رب العلمين والصلاة والسلام على الحبيب المصطفى محمد واله الطيبن الطاهرين :السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
    احسنتم وفقكم الله للعلم والعمل الصالح

    تعليق


    • #3
      بسم الله الرحمن الرحيم
      والحمد لله رب العلمين والصلاة والسلام على الحبيب المصطفى محمد واله الطيبن الطاهرين :السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
      شکرا علغŒ مرورکم طغŒب سغŒدنا الافاضل وجزاءکم اللہ خغŒر الجزاء

      تعليق


      • #4
        بسم الله الرحمن الرحيم
        والحمد لله رب العلمين والصلاة والسلام على الحبيب المصطفى محمد واله الطيبن الطاهرين :السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
        شکرا علي مرورکم طيب سيدنا الافاضل وجزاءکم اللہ خير الجزاء

        تعليق

        يعمل...
        X