بسم اللہ الرحمن الرحيم
اللھم صلي علي محمد وال محمد
اللھم صلي علي محمد وال محمد
حضرت علي عليہ السلام کا نام نامي اور اسم گرامي محتاج تعارف نہيں ہے انکا جو تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہے وہ کسي پر پوشيدہ نہيں ہے آپ کو اہلبيت اطہار (ع)اور اکابر صحابہ ميں جو امتيازي اور اختصاصي شان حاصل ہے وہ بھي محتاج بيا ن نہيں ہے چنانچہ ارشاد امام احمد و نسائي ميں بيان ہوا ہے کہ:
"ماجاء لاحدمن اصحاب رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم من الفضائل ماجاء لعلي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ"
آنحضرت کے اصحاب ميں سے کسي کے اس قدر فضائل بيان نہيں ہوئے ہيں جتنے حضرت علي عليہ السلام کے متعلق وارد ہوئے ہيں .(1)
حضرت علي عليہ السلام مومن اور منافق کي پہچان کا ذريعہ اور وسيلہ ہيں اگر آپ کسي مومن يا منافق کو پہچاننا چاہتے ہيں تو يہ ديکھيں کہ يہ شخص حضرت علي (ع) سے بغض و عداوت اور دشمني رکھتا ہےکہ نہيں، اگر يہ شخص حضرت امير (ع) کي محبت و الفت سے سرشار ہے تو مومن ہے اور اگر حضرت کے ساتھ بغض و عداوت رکھتاہے تو منافق ہے لہذا پيغمبر اسلام نے مومن و منافق کي پہچان کے لئے حضرت علي عليہ السلام کے ساتھ محبت و دوستي اور انکے ساتھ عداوت اور دشمني کو معيار قرار ديا ہے اس سلسلے ميں آنحضرت کا ارشاد ہے " قال صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم لعلي لا يحبک الا مومن ولا يبغضک الا منافق " پيغمبر اکرم نے فرمايا کہ اے علي مومن تم سے محبت اور دوستي رکھے گا اور منافق تم سے بغض و عداوت رکھے گا. (2)
پيغمبر اکرم کے ايک برجستہ صحابي ابو سعيد خدري فرماتے ہيں کہ ہم منافقين کو حضرت علي عليہ السلام کي عداوت اور دشمني کے ذريعہ پہچانا کرتے تھے.
آنحضرت نے فرمايا کہ" من سب عليا فقد سبني ومن سبني فقد سب اللہ " (3) جس نے علي کو گالي دي اس نے مجھے گالي دي اور جسنے مجھے گالي دي اس نے اللہ کو گالي دي .
آنحضرت نے فرمايا کہ" من آذي عليا فقد آذاني ومن آذاني فقد آذي اللہ " جس نے علي کو اذيت دي اس نے مجھے اذيت دي اور جسنے مجھے اذيت دي اس نے خدا کو اذيت دي .(4)
مذکورہ احاديث سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ علي کا مرتبہ گھٹانے والا انکو برا کہنے والا اور انھيں اذيت پہنچانے والا کبھي بھي مسلمان نہيں ہوسکتا.
بني اميہ کے دور حکومت ميں امير معاويہ نے اپني بيعت کے شرائط ميں يہ شرط بھي رکھي تھي کہ لوگ حضرت علي عليہ السلام پر سب و لعن کيا کريں (5)ان کے نزديک بغير اس شرط کے بيعت مستند اور قابل حجت نہيں ہوسکتي تھي معاويہ نے سعد بن ابي وقاص سے بھي کہا تھا کہ علي کو گالياں دينے سے تمہيں کس نے منع کيا ہے " ما منعک ان تسب ابا تراب" (6)لہذا حضرت علي عليہ السلام اور انکے اہلبيت اطہار(ع) کے لئے معاويہ اور اسکے بعد آنے والے بني اميہ کے بادشاہوں کا دور تاريک ترين دور رہا ہے اور آنحضور (ص) کي اولاد کے خلاف يہ بھيانک صورتحال عمر بن عبدالعزيز کے دور حکومت تک جاري رہي اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ تمام وہ لوگ جو بني اميہ کي طرف منتسب يا انکے زير اثر يا انکے جال ميں پھنسے ہوئے تھے وہ لوگ حضرت علي اور اہلبيت نبي (ص) کے ساتھ دشمني اور عداوت کو ديني فرائض ميں سمجھنے لگے اور بعد کي نسلوں ميں بھي آج تک يہ جذبہ کار فرما ہے چنانچہ جن لوگوں نے اہلبيت (ع) کے ساتھ ذرا سي بھي محبت اور الفت کا اظہار يا اعلان کرنے کي کوشش کي انکو بني اميہ اور ان کے حواريوں نے ظلم و بربريت کا نشانہ بنايا اگر چہ حضرت علي (ع) پر سر ممبر سب و شتم جو معاويہ کے دور حکومت سے شروع ہوا تھاوہ عمر بن عبد العزيز کي حکومت کے دوران بند ہوگيا ليکن حضرت امير اور اہلبيت رسول اکرم (ص) کے خلاف جو فضا بني اميہ نے مکدر کردي تھي اس کا اثر خلفاء بني عباس کے دور حکومت ميں بھي نماياں رہا چنانچہ بني عباس کے دور حکومت ميں سادات اور اہلبيت (ع) کے دوستداروں کو بني اميہ کے دور سے کہيں زيادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور اب بھي اس کي مثاليں ملتي ہيں شيعيان علي عليہ السلام کو آج بھي اہلبيت اطہار(ع) کي محبت کي سزا ميں مختلف قسم کے مشکلات کا سامنا ہے اہلبيت اطہار کي محبت ميں سرشار لوگوں کو شيعہ يا رافضي کہتے ہيں حالانکہ شيعہ کہتے ہي ان لوگوں کو ہيں جنکے دل محمد و آل محمد کي محبت و الفت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہيں اور محبت اہلبيت کے اس گرانقدر سرمايہ کي حفاظت کے لئے وہ کسي بھي قسم کي قرباني سے دريغ نہيں کرتے ہيں امام شافعي کہتے ہيں کہ اگر علي (ع) اور اہلبيت کي محبت سے سرشار ہونا رفض ہے توپھر ميں سب سے بڑا رافضي ہوں
امام شافعي کہتے ہيں.
" ان کان حب الولي رفضا ۔۔۔۔۔ فانني ارفض العبادي
ان کان رفضا حب آل محمد ۔۔۔۔ فليشہد الثقلان اني رافض"
اگرعلي (ع) کي محبت رفض ہے تو دونوں جہان گواہ رہيں کہ ميں سب سے بڑا رافضي ہوں
اور اگر آل محمد کي محبت رفض ہے تو دونوں جہان والے جان ليں کہ ميں رافضي ہوں.
آل محمد (ص)کي محبت کے جرم ميں جن لوگوں نے امام شافعي ، نسائي اور دوسرے بزرگوں کو بھي معاف نہيں کيا، وہ عام شيعيان اہلبيت کو کب معاف کريں گے کيوں کہ انکو تو بتايا ہي يہ گيا ہے معاويہ ہي سب کچھ ہے حالانکہ معاويہ کے سياہ کارناموں سے اسلام کا دامن آج بھي داغ دار ہے اور معاويہ کے سياہ کارناموں ميں وہ لوگ بھي جو معاويہ کے مددگار اور پشتيباں رہے ہيں يہ امر مسلم ہے کہ کتني ہي اچھي چيز کيوں نہ ہو اگر اس کي برائي کسي کے سامنے برابر اور مسلسل بيان کي جائے تو کچھ دنوں کے بعد سننے والے کے خيالات برگشتہ ہو جائيں گے اور بالکل يہي صورت بري چيز کي بھي ہوتي ہے کہ سنتے سنتے انسان بري چيز کو اچھا سمجھنے لگتا ہے امير المومنين علي عليہ السلام اور معاويہ کے معاملےميں بھي بالکل يہي صورت نظر آتي ہے امير المؤمنين حضرت علي عليہ السلام نے كہا تھا كہ معاويہ مجھ سے زيادہ ہوشمند نہيں ہےليكن كيا كروں ميرے اقدامات ميں دين حائل ہوجاتاہے اور معاويہ كو دين كي كوئي پرواہ نہيں ہے.
امام حسن مجتبي (ع) نے معاويہ كے ساتھ صلح نامہ ميں دو بنيادي شرطيں ركھيں پہلي شرط يہ ہے كہ حاكم شام (معاويہ ) كو كتاب اور سنت پر عمل كرنا ہوگااور دوسري شرط يہ ہے كہ اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام پر سب وشتم كے سلسلے كو بند كرنا پڑے گامعاويہ نے صلح نامہ كےتمام شرائط كو قبول كرليا ليكن كچھ ہي عرصہ كے بعد امام حسن(ع) كے ساتھ كئے گئے عہد و پيمان كو توڑ ديا مذکورہ احديث کي روشني ميں مومن اور منافق کي پہچان کا صرف ايک ہي معيار ہے کہ جو حضرت علي مشکلکشا عليہ السلام اور انکي اولاد کے ساتھ عملي طور پر محبت اوردوستي رکھے گا وہ مومن ہے اور جو انکے ساتھ دشمني اور عداوت رکھے گا وہ منافق ہے .
.................................................. .................
1۔ ارشاد امام احمد ونسائي
2۔ ترمذي ونسائي و ابن ماجہ بروايت ام سلمہ اور کنزالعمال جلد2
3۔ امام احمد بروايت ام سلمہ والحاکم صححہ اور کنزالعمال جلد6
4۔ کنزالعمال بروايت امام احمد و حاکم جلد 6 ص 152
5۔عقد الفريد جلد 2
6۔ مسلم