إعـــــــلان

تقليص
لا يوجد إعلان حتى الآن.

اصحاب اور لشکر اسامہ بن زيد

تقليص
X
 
  • تصفية - فلترة
  • الوقت
  • عرض
إلغاء تحديد الكل
مشاركات جديدة

  • اصحاب اور لشکر اسامہ بن زيد

    بسم اللہ الرحمن الرحيم

    اللھم صلي علي محمد وآل محمد


    اس کا اجمالي قصہ يہ ہے کہ آنحضرت نے اپنے انتقال سے صرف دو دن پہلے روم سے جنگ کرنے کے لئے ايک لشکر تيار کيا اور اس کا سردار اسامہ بن زيد حارثہ کو بنايا ۔ اسامہ کي عمر اس وقت 18 سال تھي اور اسامہ کي ماتحتي ميں بڑے بڑے انصار اور مہاجرين کو قرارديا ۔ جيسے ابوبکر ، عمر ، ابو عبيدہ ۔ظاہر ہے کہ اس پر لوگوں کو اعتراض ہونا چاہيے تھا ۔ اور کچھ لوگوں نے اعتراض بھي کيا کہ ہمارے اوپر ايسے نوجوان کو کيونکر سردار بنايا جاسکتا ہے جس کے چہرے پر ابھي ڈاڑھي بھي نہيں ہے اور يہ وہي لوگ تھے جنھوں نے اس سے پہلے اسامہ کے باپ زيد کي سرداري پر اعتراض کيا تھا ۔ اسامہ کے بارے ميں ان لوگوں نے ضرورت سے زيادہ نقد وتبصرہ کيا تھا ۔ يہاں تک کہ آنحضرت کو شديد غصہ آگيا تھا ۔ آپ دوآدميوں کا سہارا لے کر اس طرح نکلے تھے کہ آپ کے قدم زمين پر خط ديتے ہوئے جارہے تھے ۔بيماري کي وجہ سے آپ بہت خستہ تھے (ميرے ماں باپ حضور پر فدا ہوجائيں) آتے ہي آپ منبر پرگئے حمد وثنا ئے الہي کے بعد فرمايا :

    "ايھا الناس" ! يہ کيا بات ہے جو اسامہ کي سرداري کےبارے ميں ميں سن رہا ہوں ۔اگر تم ميري اس بات پر اعتراض کررہے ہو کہ ميں نے اسامہ کو کيوں لشکر کا سردار بنايا ۔(تويہ کوئي نئي بات نہيں ) تو اس سے پہلے ميرے اوپر زيد کو سردار بنانے ميں اعتراض کرچکے ہو ۔خدا کي قسم زيد سرداري کا مستحق تھا اور اس کا بيٹا (اسامہ) بھي اس کے بعد سرداري وامارت کا لائق وسزاوار ہے

    اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جلدي کوچ کرنے کے لئے آمادہ کرنا شروع کرديا کبھي فرماتے "جھزوا جيش اسامۃ " اسامہ کے لشکر کو تيار کرو اور جاؤ ! کبھي فرماتے "انفذوا جيش اسامۃ " اسامہ کے لشکر کو (جلدي) روانہ کرو ۔کبھي فرماتے :ارسلوا بعث اسامۃ " اسامہ کے ساتھ لوگوں کو (جلدي ) بھيجو! ان جملوں کي باربار تکرار کرتے رہے ۔ليکن ہر مرتبہ لوگ ٹال مٹول کرتے رہے اور مدينہ کے کنا رے جاکر پڑاؤ ڈال ديا ۔ مگر يہ لوگ جانے والے نہيں تھے ۔

    اس قسم کي بات مجھے يہ پوچھنے پر مجبور کرتي ہے :آخر رسول (ص) کے ساتھ اتني بڑي جسارت کي ہمت کيسے ہوئي؟ وہ رسول اکرم جو مومنين کے لئے رو‌ف ورحيم ہے ۔اس کے حق ميں يہ کيسي نافرماني ؟ ميں تو کيا کوئي بھي آدمي اس سرکشي وجراءت کي معقول تاويل نہيں کرسکتا ۔

    ميں نے خدا کے حضور ميں عہد کيا ہے کہ انصاف سےکام لوں گا اپنے مذہب کے لئے تعصب نہ برتوں گا ۔ اور ناحق اس کے لئے کسي وزن کا قائل نہيں ہوں گا ۔اور جيسا کہ کہا جاتا ہے يہاں پر حق تلخ ہے اور آنحضرت نے فرمايا بھي ہے : حق بات کہو چاہے وہ تمہارے خلاف ہي کيوں نہ ہو۔ اور حق بات کہو چاہے وہ تلخ ہي کيوں نہ ہو۔اور اس واقعہ ميں حق بات يہ ہے کہ جن صحابہ نے بھي اسامہ کو سردار بنائے جانے پر آنحضرت پر اعتراض کيا تھا انھوں نے حکم الہي کي مخالفت کے ساتھ ان صريح نصوص کي مخالفت کي ہے جو نہ قابل شک ہيں اور نہ قابل تاويل ۔اورنہ ہي اس سلسلہ ميں کوئي عذر پيش کيا جاسکتا ہے ۔سوائے اس "عذر بارد" کے جو کرامت امت صحابہ اور سلف صالح کے نام پر بعض حضرات نے پيش کيا ہے ليکن کوئي بھي عاقل وآزاد اس قسم کے اعذار کو قبول نہيں کرسکتا ۔ ہاں جن کو حديث فہمي کا شعور نہ وہ يا عقل سے پيدل ہوں يا مذہبي تعصب نے ان کو اس حد تک اندھا بناديا ہو کہ جو واجب الاطاعت فرض واور واجب الترک نہيں ميں فرق نہ کرسکتے ہوں ۔ان کي بات الگ ہے ۔ميں نے بہت کوشش کي

    کہ کوئي عذر ان صحابہ کے لئے تلاش کرسکوں ليکن ميري عقل ميں کوئي ايسي بات نہيں آئي ۔ البتہ اہل سنت نے ان اصحاب کے لئے يہ عذر تلاش کيا ہے : وہ لوگ مشايخ قريش اور بزرگان قريش ميں سے تھے سابق الاسلام تھے اور اسامہ ايک الہڑ نوجوان تھے ۔عزت اسلام کي فيصلہ کن جنگوں ميں سے کسي جنگ ميں شريک نہيں ہوئے تھے ۔ جيسے بد ر،احد ، حنين وغيرہ اور نہ ہي کسي قسم کي سابقيت تھي بلکہ رسول خدا نے ان کو لشکر کا سردار بنايا تھا تو يہ بہت ہي کم سن تھے ۔ اور انساني طبيعت کا خاصہ ہے کہ جب بوڑھے ، بزرگ حضرات موجود ہوں تو لوگ جوانوں کي اطاعت پر تيار نہيں ہوتے اسي لئے اصحاب نے پيغمبر اسلام پر اعتراض کيا تھا ۔تاکہ اسامہ کي جگہ پر کسي بزرگ صحابي کو سرداري مرحمت فراديں ۔۔۔۔ ليکن اس عذر کا مدرک نہ کوئي دليل عقلي ہے ۔اور نہ شرعي اور نہ کوئي اس بات کو مان سکتا ہے جس نے قرآن پڑھا ہو اور اس کے احکام کو سمجھاہو کيونکہ قرآن کا اعلان ہے:

    "وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھواہ (پ 28 س 59 (الحشر) آيت 7)

    ترجمہ:- رسول جو حکم ديں اس کو لے لو (مان لو) اور جس سے روکيں اس سے رک جاؤ "۔ دوسري جگہ ارشاد ہے :-" وما کان لمومن ولامومنۃ

    اذا قضي اللہ ورسولہ امر ان يکون لھم الخيرۃ من امرھم ومن يعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلا مبينا (پ 23 س 33 (الاحزاب )ايت 36)

    ترجمہ:- نہ کسي مومن کو اور نہ کسي مومنہ کويہ حق ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کيس کام کا حکم ديں تو ان کو اپنے اس کام ( کے کرنے نہ کرنے)کا اختيار ہوا ور (ياد رہے کہ جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کي نافرماني کي وہ يقينا کھلم کھلا گمراہي ميں مبتلا ہوچکا ۔
    ان نصوص صريحہ کے بعد بھلا کون سا عذر باقي ہے جس کو عقلا قبول کرسکيں ؟ ميري سمجھ ميں يہ بات نہيں آتي کہ يمں ان لوگوں کے بارے يمں کہوں جنھوں نے رسول اللہ کو غضبناک کيا ۔ اور وہ جانتے تھے کہ رسول کي ناراضگي سے خدا ناراض ہوجاتا ہے ۔ رسو ل پر ہذيان کا الزام لگا يا ان کے سامنے تھے کہ تو تو ، ميں ميں ، شوروغل ،اختلاف کا مظاہرہ کيا ۔ جب کہ آپ مريض بھي تھے ۔انتہا يہ ہوگئي کہ خلق عظيم پر فائز پيغمبر نے ان لوگوں کو اپنے کمرے سے نکال ديا ۔کيا يہ سب باتيں کم ہيں ؟
يعمل...
X